رسائی کے لنکس

خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات کیا 'آپریشن عزم استحکام' کا ردِعمل ہے؟


  • خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
  • بنوں کینٹ اور ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشت گردی کے دو مختلف واقعات میں مجموعی طور پر 28 افراد مارے گئے۔
  • بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں تیزی آئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اُن کے حملے بھی بڑھ رہے ہیں۔
  • طاقت کے استعمال سے بھی 100 فی صد نتائج نہیں ملتے: سینئر صحافی داؤد خٹک
  • فوجی آپریشنز سے پہلے لوگوں کا اعتماد حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے: جنرل آصف یاسین

پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا میں دو روز کے دوران دہشت گردی کے مختلف واقعات میں 10 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 28 افراد کی ہلاکت نے صوبے کی سیکیورٹی صورتِ حال پر مزید سوالات اُٹھا دیے ہیں۔ فوج نے اس حملے کا الزام افغانستان میں حافظ گل بہادر گروپ پر عائد کیا ہے۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں تیزی آئی ہے اسی لیے وہ بھی اب بڑے حملے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جب کہ بعض مبصرین کہتے ہیں کہ ہر فوجی آپریشن کے بعد شدت پسند مزید طاقت کے ساتھ اُبھر کر سامنے آتے ہیں۔

آئی ایس پی آر کے مطابق پیر کو بنوں کینٹ پر 10 دہشت گردوں نے حملہ کیا جو جوابی کارروائی میں مارے گئے۔ بیان کے مطابق دہشت گردوں نے باردو سے بھری گاڑی کینٹ کی دیوار سے ٹکرائی جس کے باعث آٹھ اہل کار ہلاک ہوئے۔

پاکستان فوج کی جانب سے اس حملے کا براہ راست الزام افغانستان میں مبینہ طور پر موجود شدت پسند تنظیم حافظ گل بہادر گروپ پر لگایا گیا تھا۔

بدھ کو پاکستان نے بنوں کینٹ میں دہشت گردوں کے حملے کے بعد اسلام آباد میں طالبان حکومت کے نائب ناظم الامور کو دفترِ خارجہ طلب کر کے احتجاجی مراسلہ حوالے کیا ہے۔

مراسلے میں طالبان حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کرے اور بنوں واقعے میں ملوث دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے خلاف کارروائی کرے۔

اس حوالے سے تاحال افغان طالبان کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے تاہم ماضی میں طالبان حکومت شدت پسندی کو پاکستان کا اندرونی مسئلہ قرار دیتی رہی ہے۔

دوسرے واقعے میں دہشت گردوں نے ڈیرہ اسماعیل خان کے قریب دیہی مرکزِ صحت کو نشانہ بنایا جس میں دو بچوں اور دو خواتین سمیت پانچ افراد جان کی بازی ہار گئے۔ جوابی کارروائی کے دوران تین دہشت گرد جب کہ دو سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔

یہ واقعات ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب حال ہی میں حکومت نے دہشت گردوں کے خلاف 'عزم استحکام آپریشن' کے نام سے فوجی کارروائی شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن اس آپریشن کی مقامی سطح پر مخالفت کی گئی تھی جب کہ صوبے کے مختلف اضلاع میں اس کے خلاف جلسے اور ریلیاں بھی ہوئی ہیں۔

سینئر صحافی اور شدت پسندی کے اُمور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار داؤد خٹک کہتے ہیں کہ یہ حقیقت ہے کہ جب معاملات مذاکرات سے حل نہ ہو رہے ہوں تو فوجی آپریشن ہی واحد حل رہ جاتا ہے۔ لیکن طاقت کے استعمال سے بھی 100 فی صد نتائج نہیں ملتے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اس سے قبل بھی فوج نے دہشت گردوں کے خلاف متعدد فوجی آپریشن کیے ہیں۔ لیکن کامیابی کے دعوؤں کے باوجود دہشت گرد پھر سر اُٹھاتے رہے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی کو جڑ سے اُکھاڑ پھیکنے کے لیے مؤثر حکمتِ عملی کا فقدان رہا ہے۔

داؤد خٹک کہتے ہیں کہ گزشتہ 20 برسوں کے دوران اگر دیکھا جائے تو باجوڑ، مہمند، خیبر، اورکزئی، کرم، جنوبی اور شمالی وزیرستان میں متعدد فوجی آپریشنز کیے گئے۔

اُن کے بقول مقامی افراد ان آپریشنز سے بہت متاثر ہوئے کیوں کہ اُنہیں اپنے گھر بار، مال مویشی اور بچوں کی تعلیم سمیت کئی چیزوں سے محروم ہونا پڑا اور یہی وجہ ہے کہ فوجی آپریشن کے خلاف آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو شدت پسندوں بشمول نیک محمد، بیت اللہ محسود، حکیم اللہ محسود، ملا فضل اللہ اور خالد سجنا سمیت دیگر شدت پسندوں کو امریکی ڈرون حملوں میں نشانہ بنایا گیا۔ یہ لوگ فوجی کارروائی سے بچ نکلتے تھے۔

داؤد خٹک کہتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ فوجی آپریشنز پر لوگ سوال اُٹھاتے ہیں۔

حافظ گل بہادر گروپ کتنا طاقت ور ہے؟

داؤد خٹک کہتے ہیں کہ آپریشن ضربِ عضب سے قبل حافظ گل بہادر گروپ بھی پاکستان کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے لیے خطرے کا باعث نہیں بنا تھا۔ بلکہ ان کا شمار 'گڈ طالبان' میں ہوتا تھا۔

اُن کے بقول حافظ گل بہادر کا اپنے علاقے میں بہت اثرو رسوخ تھا اور اسی وجہ سے اُن کے القاعدہ اور خطے کی دیگر شدت پسند تنظیموں کے ساتھ تعلقات تھے۔ لیکن آپریشن ضربِ عضب کے بعد جب اس گروپ کے لوگ بھی افغانستان گئے تو وہاں ان کی ٹی ٹی پی کے ساتھ قربتیں بڑھ گئیں اور دونوں کے اہداف بھی مشترک ہو گئے۔

داؤد خٹک کہتے ہیں کہ حافظ گل بہادر گروپ 'القاعدہ' کی طرز پر آپریٹ کرتا ہے۔ یعنی کسی جگہ پہلے خود کش دھماکہ کیا جاتا ہے اور پھر کچھ حملہ آوروں کو اندر داخل کیا جاتا ہے جس کا مقصد مخالف فریق کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔

عزمِ استحکام: پاکستان میں ایک اور آپریشن کی ضرورت کیوں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:46 0:00

سابق سیکریٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل (ر) آصف یاسین کہتے ہیں کہ ان کے دور میں جتنے بھی فوجی آپریشن ہوئے انہیں عوامی تائید حاصل تھی اور یہی وجہ ہے کہ اس کے خاطر خواہ نتائج بھی برآمد ہوئے۔

خیال رہے کہ جنرل آصف یاسین 11 کور پشاور کے کمانڈر بھی رہے ہیں اور افغان سرحد سے متصل تمام قبائلی علاقے انہی کی نگرانی میں آتے تھے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ فوج کا کام صرف لڑنا ہوتا ہے۔ لہذٰا کسی بھی علاقے میں فوجی آپریشن سے پہلے وہاں کے عوام کا اعتماد حاصل کرنا سول حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے۔

اُن کے بقول بظاہر اس بات کا فقدان نظر آتا ہے کیوں کہ یہ دیکھنے میں نہیں آیا کہ حکومتی لوگ ان علاقوں میں گئے ہوں اور لوگوں سے بات کی ہو۔

جنرل آصف یاسین نے دعویٰ کیا کہ ماضی میں کامیاب آپریشن کی بڑی وجہ سہ جہتی پالیسی ہوتی تھی۔ یعنی 'کلیئر' 'ہولڈ' اینڈ 'ٹرانسفر' اس کے ذریعے لوگوں کا اعتماد حاصل کیا جاتا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ماضی میں ہونے والے فوجی آپریشنز کے بعد وہاں حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے شدت پسندوں کو دوبارہ سر اُٹھانے کا موقع ملا کیوں کہ وہاں کے لوگوں کو قومی دھارے میں شامل نہیں کیا گیا اور یوں اس خلا کو شدت پسندوں نے پُر کرنے کی کوشش کی۔

گزشتہ سال پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2013 کے بعد سب سے زیادہ خود کش حملے 2023 میں ریکارڈ کیے گئے۔

رپورٹ کے مطابق 2022 کے مقابلے میں 2023 میں خود کش حملوں کی تعاد میں 93 فی صد اضافہ ہوا۔ ان حملوں کے نتیجے میں اموات کی شرح میں 226 فی صد اضافہ ہوا۔

فورم

XS
SM
MD
LG