رسائی کے لنکس

بھارت نے اپنا سیٹیلائٹ ایلون مسک کی اسپیس ایکس سے کیوں لانچ کیا؟


  • میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت کی سیٹیلائٹ گاڑی ایل ایم وی تھری صرف 4000 کلو گرام تک کے وزن والے سیٹیلائٹ کو مدار میں پہنچانے کی اہلیت رکھتی ہے۔
  • سیٹیلائٹ بالکل ٹھیک ہے اور سولر پینلز کو اپنی جگہ پر نصب کر دیا گیا ہے: اسرو عہدے دار ڈاکٹر رادھا کرشنن
  • بھارت ماضی میں بھاری سیٹیلائٹس چھوڑنے کے لیے فرانسیسی ’ایریان اسپیس‘ پر انحصار کرتا رہا ہے۔

نئی دہلی -- بھارت کے جدید ترین سیٹیلائٹ جی سیٹ-این ٹو کو پیر کی رات دنیا کے امیر ترین امریکی تاجر ایلون مسک کے اسپیس ایکس کے فالکن نائن راکٹ کی مدد سے خلا میں چھوڑ دیا گیا۔

بھارت کے خلائی مرکز ’انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن‘ (اسرو) کے سیٹیلائٹ کو امریکی ریاست فلوریڈا سے لانچ کیا گیا۔

'اسرو' کی تجارتی شاخ ’نیو اسپیس انڈیا لمٹیڈ‘ (این ایس آئی ایل) کے چیئرمین اور مینیجنگ ڈائرکٹر رادھا کرشنن دورئی راج کے مطابق لانچنگ کامیاب رہی۔

اُن کا کہنا تھا کہ سیٹیلائٹ جسے جی سیٹ۔20 بھی کہا جاتا ہے، درست مدار میں پہنچ گیا ہے۔ ڈاکٹر رادھا کرشنن اپنے دفتر سے لانچنگ کی نگرانی کر رہے تھے۔

'اسرو' کے چیئرمین ڈاکٹر سومناتھ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جی سیٹ کی مشن لائف 14 سال ہے اور زمینی بنیادی ڈھانچہ اس کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔

ان کے مطابق سیٹیلائٹ بالکل ٹھیک ہے اور سولر پینلز کو اپنی جگہ پر نصب کر دیا گیا ہے۔

یہ پہلا موقع ہے جب 'اسرو' نے اپنے سیٹیلائٹ کو اسپیس ایکس سے لانچ کیا ہے۔ یہ بھی پہلا موقع ہے جب اس نے ایسا سیٹیلائٹ تیار کیا ہے جو صرف اعلیٰ درجے کی ’کے اے بینڈ فریکوینسی‘ استعمال کرتا ہے۔

اُن کے بقول اس سیٹیلائٹ کے چھوڑے جانے سے مواصلات کے شعبے میں بھارت نے زبردست پیش رفت کی ہے۔ اس سے بھارت کے دور دراز علاقوں میں اور یہاں تک کہ اندرونِ ملک پروازوں میں بھی انٹرنیٹ خدمات فراہم کی جائیں گی۔

حالاں کہ بھارت خود دیگر ملکوں کے سیٹیلائٹ لانچ کرتا ہے اور اس نے صرف رواں سال 430 سے زائد غیر ملکی سیٹیلائٹ لانچ کیے ہیں۔ لیکن اسے مذکورہ سیٹیلائٹ کو ایلون مسک کے اسپیس ایکس سے لانچ کرنا پڑا۔

بھارت کو 'اسپیس ایکس' سے معاہدہ کیوں کرنا پڑا؟

میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت کی سیٹیلائٹ گاڑی ایل ایم وی تھری صرف 4000 کلو گرام تک کے وزن والے سیٹیلائٹ کو مدار میں پہنچانے کی اہلیت رکھتی ہے۔ جب کہ مذکورہ سیٹیلائٹ کا وزن 4700 کلوگرام ہے۔

اسپیس ایکس کا فالکن نائن بی۔فائیو راکٹ 70 میٹر لمبا اور 549 ٹن وزنی ہے۔ وہ 8300 کلوگرام کے پے لوڈ کو جیو سنکرونس مدار تک اور 22800 کلوگرام وزنی پے لوڈ کو نچلے زمینی مدار تک پہنچا سکتا ہے۔

بھارت ماضی میں بھاری سیٹیلائٹس چھوڑنے کے لیے فرانسیسی ’ایریان اسپیس‘ پر انحصار کرتا رہا ہے۔ لیکن کسی ایسے راکٹ کی عدم دستیابی کی وجہ سے جو 4700 کلوگرام والے سیٹیلائٹ کو خلا میں چھوڑ سکے، اسرو کو اسپیس ایکس سے معاہدہ کرنا پڑا۔

کمیونی کیشن سیٹیلائٹ جی سیٹ۔این2 میں 32 یوزر بیم فٹ ہیں جن میں آٹھ نیرو اسپاٹ بیم اور 24 وائڈ اسپاٹ بیم ہیں۔

'یہ بھارت کی بڑی کامیابی ہے'

سائنس دانوں اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسے مواصلاتی ٹیکنالوجی کے میدان میں بھارت کی بڑی کامیابی تصور کیا جا رہا ہے۔

معروف سائنس داں پروفیسر عارف علی کے خیال میں بھارت نے کمپیوٹر سائنس کے شعبے کو ہمیشہ بہت اہمیت اور ترجیح دی ہے اور وہ اس میدان میں پیش پیش رہا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے کمپیوٹر سائنس کے شعبے میں ترقی کی وجہ سے متعدد شعبوں میں کامیابیاں حاصل کی ہیں اور جی سیٹ این۔2 کی لانچنگ کو بھی اسی کامیابی کا ایک حصہ تصور کرنا چاہیے۔

ان کے مطابق مواصلاتی ترقی کی وجہ سے پورے ملک میں انٹرنیٹ خدمات کا جال بچھ گیا ہے جس کی وجہ سے ملک کے کسی بھی کونے سے آن لائن شپنگ کی جا سکتی ہے اور کوئی بھی چیز کہیں بھی منگائی جا سکتی ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ جب مذکورہ سیٹیلائٹ کام کرنا شروع کر دے گا تو روزگار کے مواقع بڑھیں گے اور ضروری اشیا کی حصولیابی میں مزید آسانی پیدا ہو جانے کی وجہ سے عوام کا معیار زندگی اور بلند ہو گا۔

واضح رہے کہ 'اسرو' نے رواں سال جنوری میں ایلون مسک کے اسپیس ایکس کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا۔ اسی معاہدے کے تحت مذکورہ لانچنگ ہوئی ہے۔ اسے 'اسرو' اور 'اسپیس ایکس' کے درمیان تجارتی اشتراک کے نئے دور کا آغاز تصور کیا جا رہا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق چوں کہ بھارت خلائی مشن کے اپنے عزائم کو آگے بڑھا رہا ہے اس لیے اس کے سیٹیلائٹس کی لانچنگ اور تیکنیکی سپورٹ فراہم کرنے میں اسپیس ایکس کا کردار اہم ہو جائے گا۔

نیو اسپیس انڈیا لمٹیڈ (این ایس آئی ایل) نے رواں سال کے تین جنوری کو اسپیس ایکس کے فالکن نائن راکٹ سے جی سیٹ۔20 کی لانچنگ کا اعلان کیا تھا۔

سیٹلائٹ چھوڑے جانے کے وقت کو بھارت اور امریکہ کے درمیان بڑھتے اور گہرے ہوتے رشتوں کے تناطر میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔ امریکہ کے منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی میں دوستی اور ذاتی تعلقات ہیں اور ایلون مسک کو دونوں رہنما احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ ایلون مسک نریندر مودی کے مداح ہیں۔ حالاں کہ بعض حلقوں میں بھارت اور اسپیس ایکس کے درمیان اس تجارتی رشتے پر سوال اٹھایا جا رہا ہے۔ لیکن یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ دونوں کے درمیان معاہدہ امریکی انتخابات سے بہت پہلے ہو گیا تھا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اسپیس ایکس بھارت کے خلائی پروگرام میں صرف سیٹلائٹس لانچ کرنے تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ ایک معاہدے کے تحت بھارت کے ہیومن اسپیس مشن میں بھی سہولت فراہم کر رہا ہے۔

اس مشن کے تحت ایک بھارتی خلاباز کو فالکن نائن اینڈ کریو ڈریگن سسٹم کے ذریعے ’انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن‘ (آئی ایس ایس) بھیجا جائے گا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG