پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے فروری اور مارچ میں لانگ مارچ کرنے کے اعلان پر حکمراں جماعت بھی سیاسی میدان میں سرگرم ہو گئی ہے۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی جمعے کو منڈی بہاؤ الدین میں جلسے سے عوامی رابطہ مہم کا آغاز کر دیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان اب خود میدان میں نکل کر اپوزیشن کو چیلنج کر رہے ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں سیاسی پارہ تیزی سے اُوپر جا رہا ہے اور سیاسی جماعتیں آئندہ الیکشن کی ابھی سے تیاری کر رہی ہیں۔
بعض مبصرین کے مطابق منڈی بہاؤ الدین میں جلسے سے خطاب میں وزیرِ اعظم عمران خان کی تقریر میں وہ رنگ نظر آیا جو بطور اپوزیشن رہنما اُن کی تقریروں میں ہوتا تھا۔
عمران خان نے اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کو اُن کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے کی اس لیے جلدی ہے تاکہ اُنہیں این آر او مل سکے۔ تاہم وزیرِ اعظم نے ایک بار پھر واضح کیا کہ جب تک وہ زندہ ہیں اپوزیشن رہنماؤں کو این آر او نہیں ملے گا۔
بعض مبصرین سمجھتے ہیں کہ عمران خان حزبِِ اختلاف کی اُن کے خلاف ہونے والی صف بندی سے تھوڑے پریشان نظر آتے ہیں جس کا جواب دینے کے لیے وہ خود بھی متحرک ہوئے ہیں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس سمجھتے ہیں کہ عمران خان کی تقریر کا متن لگ بھگ وہی تھا جو اکثر وہ اپنی سیاسی تقریروں میں کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مظہر عباس کا کہنا تھا کہ جب حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے لانگ مارچ کا اعلان کیا تو عمران خان کو بھی ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ بھی عوامی رابطہ مہم شروع کریں۔
البتہ مظہر عباس سمجھتے ہیں کہ جب ملک میں معاشی مسائل ہوں اور لوگ مہنگائی سے پریشان ہوں تو ایسے میں وزیرِ اعظم کو یوں عوام میں جا کر اپوزیشن پر تنقید کے بجائے خاموشی سے عوام کو ریلیف دینے پر کام کرنا چاہیے۔ لہذٰا حکمراں جماعت کے لیے یہ وقت جلسے، جلوسوں کے لیے مناسب نہیں ہے۔
' وزیرِ اعظم کا سخت لب و لہجہ کوئی نئی بات نہیں'
وزیراعظم کے لب و لہجہ اور تقریر سے متعلق مظہر عباس کا کہنا تھا کہ اُس میں اُنہیں کوئی نئی چیز نظر نہیں آئی۔ وہ عام طور پر اپنے مخالف کے بارے میں ایسی ہی باتیں کرتے رہے ہیں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار نسیم زہرہ سمجھتی ہیں کہ عمران خان سمجھتے ہیں کہ حزبِ اختلاف کی تمام جماعتیں اُن کے خلاف دوبارہ منظم ہو رہی ہیں، لہذٰا یہی وقت ہے کہ وہ بھی عوام میں جائیں اور اپنی کارکردگی کے ساتھ ساتھ کرپٹ عناصر کو پکڑنے کے اپنے سیاسی نعرے کو دہرائیں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار نسیم زہرہ سمجھتی ہیں کہ عمران خان ایسا سیاسی ماحول بنانا چاہتے ہیں جس سے لگے کہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد غیر ضروری اور ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔
اُن کے مطابق اگر عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد آ بھی جاتی ہے تو ساری بات نمبروں پر ہو گی جس پر تاحال کچھ واضح نہیں ہے۔ حالانکہ کہ حزبَِ اختلاف کی جماعتیں یہ دعوٰٰی کر رہی ہیں کہ حکومتی ارکان اُن کےساتھ ہیں۔
اُن کے بقول عمران خان اپنی جماعت کے لوگوں کو بھی پیغام دے رہے ہیں کہ اُن کے پاس بھی کوئی حکمتِ عملی ہے۔ اُنہیں بس اپنی جماعت کے لوگوں کا ساتھ چاہیے۔
مظہر عباس کی رائے میں حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کی حالیہ ملاقاتوں پر وزیرِ اعظم قدرے پریشان ہیں۔
اُن کے بقول خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے نتائج اور ضمنی انتخابات میں پے درپے شکست پر وزیرِ اعظم کو تشویش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے بعد اُنہوں نے پارٹی تنظیمیں بھی تحلیل کر دی تھیں۔
'جب حکومت مقابلے پر آ جائے تو ملک متاثر ہوتا ہے'
مظہر عباس کہتے ہیں کہ جب حکومتیں عوامی مسائل کے حل چھوڑ کر خود اپوزیشن جماعتوں کے مقابلے میں میدان میں آ جائیں تو اس کی کارکردگی پر فرق پڑتا ہے۔اگر حکومت بھی جلسے کرے گی تو ملک کون چلائے گا?
اُن کے بقول تحریکِ انصاف پر پہلے ہی کارکردگی دکھانے کا دباؤ ہے اور ایسے میں جب وہ گورننس بہتر کرنے کے بجائے جلسے کرے گی تو اس سے عوام میں اچھا تاثر نہیں جائے گا اور اس سے غیر ملکی سرمایہ کاری بھی متاثر ہوتی ہے۔
عمران خان کو خطرہ کیا ہے؟
نسیم زہرہ کہتی ہیں کہ حکمراں جماعت اس لیے بھی پریشان ہے کیوں کہ اپوزیشن جماعتیں اس بار قدرے سنجیدہ دکھائی دیتی ہیں۔ شہباز شریف چوہدری پرویز الہٰی کے گھر چلے گئے اور عدمِ اعتماد کے لیے کوششیں تیز ہو رہی ہیں۔ لہذٰا حکومت بھی اب متحرک ہے۔
اُن کے بقول حکمراں جماعت نے بھی اتحادیوں کے گلے شکوے دُور کرنے کے لیے کمر باندھ لی ہے جب کہ پنجاب اور وفاقی کابینہ میں مزید توسیع کا عندیہ دیا گیا ہے۔
'جب تک اسٹیبلشمنٹ ساتھ ہے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں'
سینئر صحافی نسیم زہرہ کے بقول جب تک اسٹیبلشمنٹ کھل کر کسی بھی سیاسی جماعت کی مخالفت نہیں کرتی، اس وقت تک سیاسی منظر نامے میں تبدیلی نہیں آتی۔
اُن کے بقول موجودہ صورتِ حال میں اُنہیں نہیں لگتا کہ اسٹیبلشمنٹ اس حکومت کو گھر بھیجنے میں فی الحال دلچسپی رکھتی ہے۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ جب عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد آئے گی تو ا س کی کامیابی کا دارومدار اسٹیبلشمنٹ کی مرضی پر ہوگا کیوں کہ ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں سینیٹ میں قانون سازی کے معاملات اور چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں اکثریت کے باوجود اپوزیشن جماعتوں کو شکست ہوئی۔