رسائی کے لنکس

کیا شرائط پوری نہ کرنے کی صورت میں پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں ڈالا جا سکتا ہے؟


ایف اے ٹی ایف کا اجلاس۔ 18 اکتوبر 2019ء (فائل فوٹو)
ایف اے ٹی ایف کا اجلاس۔ 18 اکتوبر 2019ء (فائل فوٹو)

بھارت کے بعض اخبارات اپنے ہاں قائم ایک تھنک ٹینک کی تجزیاتی رپورٹ کی بنیاد پر لکھ رہے ہیں کہ اس بات کا امکان ہے کہ پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ( ایف اے ٹی ایف) کی عائد کردہ شرائط میں سے بعض شرائط پوری نہ کرنے کی پاداش میں بلیک لسٹ میں ڈال دیا جائے۔

اس وقت پاکستان اس کی گرے لسٹ میں ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ گروپ کی عائد کردہ شرائط میں سے چھیانوے فی صد شرائط پوری کر چکا ہے اور جو رہ گیا ہے اس پر کام کر رہا ہے۔

گروپ کا اجلاس اکیس فروری سے پیرس میں شروع ہو رہا ہے جو چار مارچ تک جاری رہے گا۔ اور اس میں پاکستان کا کیس بھی پیش ہو گا جس کا موقف ہے کہ اس نے بیشتر شرائط پوری کردی ہیں اور بقیہ پر کام کر رہا ہے، اس لیے اسےگرے لسٹ سے نکالا جانا چاہیے۔

مائیکل کوگلمین واشنگٹن کے ولسن سینٹر میں ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور جنوبی ایشیا کےلیے سینیئر ایسو سی ایٹ ہیں۔ بعض بھارتی اخبارات میں اس حوالے سے چھپنے والے آرٹیکلز کے بارے میں انہوں نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ بھارتی پریس کی ان رپورٹوں پر بالکل یقین نہ کیا جائے جن میں کہا گیا ہے کہ اس سبب سے پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں ڈالا جا سکتا ہے، کیونکہ، بقول رپورٹوں کے، پاکستان نے تحریک طالبان پاکستان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں، جو ایک دہشت گرد گروپ ہےاور وہ طالبان حکومت کے لیے فنڈز کی فراہمی کے واسطے کوشاں ہے۔

مائیکل کوگلمین نے اپنے ٹوئیٹ میں کہا کہ یہ بالکل غیر متعلق باتیں ہیں جن کا پاکستان کے ایف اے ٹی ایف ایکشن پلان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اس سلسلے میں وائس آف امریکہ نے مائیکل کوگلمین سے گفتگو کی۔ انھوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان نے خود ایف اے ٹی ایف کے کہنے کے مطابق اپنے ایکشن پلان کو مکمل کرنے کے سلسلے میں بڑی پیش رفت کی ہے۔ اور اس پوزیشن کے قریب پہنچ گیا ہے جب اسے گرے لسٹ سے بھی نکالا جاسکتا ہے اور صرف ایک شعبہ ایسا ہے جہاں اسے مزید پیش رفت کی ضرورت ہے، اور وہ ہے ایسے دہشت گرد لیڈروں پر مقدمات چلانااور سزائیں دینا جنہیں عالمی سطح پر دہشت گرد قرار دیا جا چکا ہے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے یہ مرحلہ عبور کرنا ایک مشکل رکاوٹ ہے؛ لیکن پاکستان اب تک اس سلسلے میں جتنا کچھ کر چکا ہے اسی کے سبب اسے گرے لسٹ میں رکھا گیا ہے۔ اور بعض بھارتی اخبارات کے اس موقف کا کوئی جواز نہیں بنتا کہ اسے بلیک لسٹ میں ڈال دیا جائے گا۔ چنانچہ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان ایف ٹی اے ایف کی آخری شرط ابھی پوری نہ ہوسکنے کے سبب گرے لسٹ میں تو رہے گا، لیکن ایسی کوئی صورت نہیں کہ اسے بلیک لسٹ کیا جا سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے نقطہ نظر سےبھارتی اخبارات کی رپورٹیں درست نہیں ہیں اور اپنے موقف کی حمایت میں جو جواز وہ دے رہے ہیں اس کا پاکستان کے ایف اے ٹی ایف ایکشن پلان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر پاکستان دنیا سے طالبان حکومت کےلیے فنڈز کی فراہمی کی وکالت کر رہا ہے یا تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کر رہا ہے تو اس کا ایکشن پلان سے کیا تعلق بنتا ہے؟

بھارتی اخبارات ایسا کیوں کر رہے ہیں، اس بارے میں ا ن کا کہنا تھا کہ بھارت میں یقیناً اس بات میں دلچسپی ہے کہ پاکستان کی پوزیشن خراب دکھائی دے اور آجکل یہ پوری دنیا میں حقیقت کا حصہ ہے کہ کوئی بھی ملک اپنے حریف ملک کے بارے میں ایسی گمراہ کن خبریں دے جن سے اس کے حریف ملک کی پوزیشن خراب نظر آئے۔ اور بعض پاکستانی سمجھتے ہیں کہ ایف اے ٹی ایف کے فیصلے سیاست کے تحت ہوتے ہیں؛ حالانکہ میں یہ نہیں سمجھتا کہ یہ درست ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ایکشن پلان کی آخری شق پر عمل درآمد کرنا چاہیے، جو ان کے خیال میں، ان دہشت گرد گروپوں کے سینئر ارکان اور لیڈروں پر مقدمات چلانے اور انہیں سزائیں دلوانے سے متعلق ہے جو دہشت گردوں کی مالی مدد کرنے میں ملوث ہیں اور جن کو عالمی سطح پر دہشت گرد قرار دیا جا چکا ہے، خاص طور پر لشکر طیُبہ اور جیش محمد کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔

بھارتی اخبارات نے اپنی خبروں میں تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ پاکستان کے مذاکرات اور افغان طالبان کی مالی مدد کےلیے پاکستان کی کوششوں کو اپنے اس موقف کا جواز بنایا ہے، جو انہوں نے پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالنے کے حوالے سے اختیار کیا ہے۔

ڈاکٹر اشفاق حسن پاکستان کے سابق مشیر خزانہ ہیں اور وہ کوگل مین کے اس موقف سے اتفاق کرتے ہیں کہ ان دونوں باتوں کا پاکستان کے ایف اے ٹی ایف ایکشن پلان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کا مقصد دہشت گردی سے بچنا تھا اور وہ مذاکرات بھی ٹوٹ گئے اور پاکستان خود بری طرح ان کی دہشت گردی کی زد میں ہے۔

بقول ڈاکٹر اشفاق ایف اے ٹی ایف بین الاقوامی سیاست کا حصہ بن گیا ہے اور پاکستان کتنا کچھ بھی کرلے، آخر کار ایف اے ٹی ایف کوئی نہ کوئی خامی نکال کر اسے مزید گرے لسٹ ہی میں رکھے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہاکستان کو عمل درآمد کے لیے جو پوائنٹ دیے گئے تھے ان میں سےوہ کوئی چھیانوے فیصد ایکشن پلان پر عمل کر چکا ہے۔ پھر بھی اسے گرے لسٹ میں رکھا جا رہا ہے۔ اس کے پیچھے پاکستان کا پڑوسی ملک اور اس کی ہمنوا عالمی قوتیں ہیں۔

انھوں نے کہا کہ یہ معاملہ اب ایکشن پلان کا نہیں بلکہ لابی کرنے کا ہے کہ پاکستان کس طرح عالمی طاقتوں کو اپنی حمایت پر آمادہ کرنے کےلیے راضی کرتا ہے۔

نیلوفر سہروردی نے جو بھارت کی ایک فری لانس صحافی ہیں اور عالمی امور پر لکھتی ہیں اور ٹائمز آف انڈیا جیسے اخبارات میں نائب مدیر رہ چکی ہیں، وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتےہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے گرے لسٹ میں رہنےیا اس میں سے نکل آنے یا بلیک لسٹ میں جانے کا جہاں تک تعلق ہے اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ ٹیرر فاننسنگ کے حوالے سے دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام اور اس میں ملوث دہشت گردوں کو سزا دلوانے میں ایف اے ٹی ایف کی شرائط کو پورا کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوتا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ چین تو پاکستان کا بڑا دوست ہے؛ وہ گروپ میں پاکستان کی حمایت کیوں نہیں کرتا؟ کوئی تو وجہ ہوگی؟

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں پاکستان کے بلیک لسٹ میں جانے کے امکانات بہت کم ہیں۔ لیکن اس کے گرے لسٹ سے نکلنے کا بھی کوئی امکان نظر نہیں آتا۔

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ( ایف آے ٹی ایف) کیا ہے؟

یہ عالمی سطح پر منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والوں پر نظر رکھنے والا ایک ادارہ ہے، جسے 1989 میں G-7 سربراہ کانفرنس نےپیرس میں اپنے سربراہ اجلاس میں قائم کیا تھا، جس کا کام منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ وغیرہ کو روکنا ہے۔ جب کوئی ملک اس کی بلیک لسٹ میں آجاتا ہے تو اس پر ایف اے ٹی ایف کے رکن کسی بھی ملک کی جانب سے اقتصادی پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں، جیسا کہ کوریا اور ایران اس وقت بلیک لسٹ میں شامل ہیں جن پر اقتصادی پابندیاں عائد ہیں۔ پھر گرے لسٹ ہے جس میں کسی ملک کے ہو نے کا مطلب ہے کہ اسے بین الاقوامی قرضوں تک محدود رسائی حاصل ہو گی۔ اس لسٹ میں پاکستان شامل ہے۔

بلیک یا گرے لسٹوں میں شامل ملکوں کو ایکشن پلان دیے جاتے ہیں کے وہ ان پر عمل درآمد کرکے وہ معاملات درست کرلیں۔ جن کی بنا پر انہیں لسٹ میں شامل کیا گیا ہے۔ اس کی سال میں تین میٹنگ ہوتی ہیں جن میں لسٹوں میں شامل ملکوں کی جانب سے ایکشن پلان پر عمل درآمد کا جائزہ لیا جاتا ہے اور گروپ اس سے کس حد تک مطمئن ہے اس کی بنیاد پر فیصلہ ہوتا ہے کہ کس ملک کو ایک لسٹ سے نکال کر دوسری لسٹ میں ڈالنا ہے یاپھر لسٹ سے نکالنا ہے۔

پاکستان کب سے گرے لسٹ میں ہے؟

دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والوں کو روکنے میں مبینہ ناکامی اور اسی قسم کے دوسرے الزامات کے سلسلے میں پاکستان 2018ء سے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہے اور اسے ایکشن پلان ملا ہوا ہے جس پر وہ، تجزیہ کاروں کے بقول، کوئی چھیانوے فیصد عمل کر چکا ہے اور باقی پر کام کر رہا ہے۔ اب پاکستان 21 فروری سے پیرس میں شروع ہونے والے اجلاس میں اپنے بارے میں فیصلے کا منتظر ہے۔

XS
SM
MD
LG