|
کراچی __ چین پاکستان میں اپنے شہریوں پر حملوں میں ملوث افراد کو کٹہرے میں لانے اور فول پروف سیکیورٹی فراہم کرنے کے مطالبات کرتا رہا ہے۔ لیکن حالیہ واقعات کے بعد یہ بازگشت سنائی دے رہی ہے کہ اب بیجنگ پاکستان میں اپنے باشندوں کی سیکیورٹی اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا ہے۔
وائس آف امریکہ کو کئی ذرائع سے ملنے والی معلومات اور عالمی میڈیا میں آنے والی خبروں کے مطابق چین یہ دباؤ ڈال رہا ہے کہ پاکستان میں کام کرنے والے اس کے ہزاروں باشندوں کے لیے چینی سیکورٹی گارڈز تعینات کرنے کی اجازت دی جائے۔
اس سے قبل وائس آف امریکہ نے سیکیورٹی ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا تھا کہ گزشتہ ماہ چھ اکتوبر کو کراچی ایئرپورٹ کے قریب ہونے والے حملے میں چینی شہریوں کی ہلاکت کے بعد چینی حکام چینی عملے کی حفاظت کے لیے چینی سیکیورٹی گارڈز تعینات کرنے پر اصرار کر رہے ہیں۔
ذرائع کے بقول پاکستان اس معاملے پر غور و فکر کر رہا ہے لیکن اس نے چین کو باضابطہ طور پر ایسی کسی تجویز کو مسترد یا قبول کرنے کے بارے میں جواب نہیں دیا ہے۔
دونوں ممالک کی وزارت خارجہ نے ان خبروں کی تصدیق یا تردید نہیں کی ہے۔ البتہ سیکورٹی امور پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کے اپنے باشندوں اور ورکرز کی سیکیورٹی سے متعلق بڑھتے خدشات پہلے ہی پاکستان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔
چین یہ مطالبہ کیوں کر رہا ہے؟
بعض مبصرین کے خیال میں پاکستان میں کام کرنے والے چینیوں پر پے درپے جان لیوا حملوں نے چین کو مجبور کیا ہے کہ وہ اس بارے میں سخت مؤقف اختیار کرے۔
گزشتہ چھ ماہ میں دو بڑے حملوں میں سات چینی باشندے ہلاک اور کئی زخمی ہوئے ہیں۔ حال ہی میں چینی سفیر نے اسلام آباد میں ایک تقریب میں پاکستان میں چینی شہریوں پر حملے کو ناقابل قبول قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ چین کو پاکستان میں اپنے شہریوں کے تحفظ کے بارے میں سب سے زیادہ تشویش پائی جاتی ہے۔
امریکہ میں مقیم بین الاقوامی سیکiورٹی امور کے ماہر اور یونائیٹڈ انسٹیٹیوٹ آف پیس سے منسلک محقق اسفندیار میر کا کہنا ہے کہ ان کے جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 2013 سے اب تک پاکستان میں چینی شہریوں پر 17 حملے کیے جاچکے ہیں جن میں درجن سے زائد ہلاکتیں اور 37 چینی شہری زخمی ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں کسی بھی ملک میں چین کے مفادات اور شہریوں پر اس قدر حملے نہیں ہوئے اور یہ حملے پاکستانی لیڈر شپ کی جانب سے بارہا یقین دہانیوں کے باوجود جاری ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ حملے پاکستان کے ساتھ خود چین کی لیڈروں کے لیے بھی شرمندگی کا باعث بنتے ہیں۔ اس لیے چینی قیادت کی بےچینی کی وجوہ واضح ہیں۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں چین کے جاری منصوبے ایسے مرحلے میں ہیں کہ وہ اب یہاں سے اپنے ورکرز کو واپس نہیں بلا سکتا اور اسے کام جاری رکھنے کے لیے سیکیورٹی بھی یقینی بنانا ہوگی۔
پشاور یونی ورسٹی میں شعبۂ بین الاقوامی تعلقات کے چیئرپرسن پروفیسر ڈاکٹر حسین شہید سہروردی کا کہنا ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے پر اب اس قدر آگے بڑھ چکا ہے کہ اسے رول بیک کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
ان کے بقول حالیہ واقعات سے پیدا ہونےو الے سیکیورٹی خدشات کے تناظر میں چین کے خیال میں ان منصوبوں کی حفاظت محض پاکستانی حکام کے حوالے کرنے پر بھی اکتفا نہیں کیا جاسکتا۔
ادھر سیکورٹی امور کے ماہر اور مبصر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود کا کہنا ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں کئی جانوں کے ضیاع کے بعد چینی شہری پاکستان کا رُخ کرنے کے لیے تیار نہیں۔
ان کے بقول چین اسی وجہ سے اپنے ورکرز کی اندرونی سیکیورٹی یقینی بنانے کے لیے چینی گارڈز لانے کے مطالبے پر دباؤ بڑھا رہا ہے۔
پاکستان کے آپشن کیا ہیں؟
پاکستان نے 2016 میں سی پیک اور دیگر منصوبوں پر کام کرنے والے چینی عملے کی حفاظت کے لیے فوج میں اسپیشل سیکیورٹی ڈویژن تشکیل دیا تھا جس میں 49 ہزار فوجی جوان تعینات ہیں۔
اسی ڈویژن کو 32 ہزار پیرا ملٹری فورس یعنی فرنٹیئر کورپس، پولیس اور لیویز کی سپورٹ بھی حاصل ہے۔
اس کے علاوہ پولیس فورسز میں سی پیک کی الگ سے ٹاسک فورسز موجود ہیں اور پھر چاروں صوبوں بشمول گلگت بلتستان اور اسلام آباد پولیس کے کاونٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ بھی اس حوالے الگ سے کام کرتے ہیں۔
فوجی اور سول خفیہ ایجنسیاں بھی چینی باشندوں کی سیکیورٹی نگرانی پر مامور ہیں۔
اس لیے حالیہ واقعات کے بعد اگر چین اپنے ورکرز کی حفاظت کے لیے اپنے سیکیورٹی اہل کار پاکستان لاتا ہے تو ماہرین کے نزدیک یہ خود پاکستانی سیکیورٹی اقدامات پر عدم اعتماد کا اظہار ہوگا۔
اسفندیار میر کا مزید کہنا تھا کہ اب مسئلہ یہ ہے پاکستان اگر ایسے میں اپنے سرزمین پر چینی سیکورٹی آپریٹس کو اجازت دیتا ہے تو اس سے اس کی خودمختاری پر حرف آتا ہے اور پاکستان ایسا کوئی تاثر نہیں دینا چاہتا۔
ان کا کہنا تھا کہ عام طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ بیرونی عناصر کسی ملک میں تعینات ہونے سے وہاں سیکورٹی کی صورتحال بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہوتی ہے اور تشدد بڑھ جاتا ہے جس کی مثال افغانستان میں واضح نظر آئی۔
ڈاکٹر سہروردی کے خیال میں اگر پاکستان کی جانب سے چینی افواج یا چینی گارڈز کو تعینات کرنے کی اجازت دے دی جائے تو یہ اپنی ناکامی کے اعتراف کے مترادف ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ایسے کسی سمجھوتے کو چینی شہریوں پر حملے میں ملوث بلوچ لبریشن آرمی سمیت دیگر گروپس اپنی کامیابی کے طور پر پیش کریں گے۔
ان کے بقول اس سے یہ تاثر بھی جائے گا کہ پاکستانی ریاست اپنی ہی سرزمین پر غیر ملکیوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہوچکی ہے اور اسے معاشی میدان میں بھی پاکستان کی ساکھ متاثر ہوگی۔
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود کے نزدیک پاکستان کے لیے یہ بات تسلیم کرنا اس لیے بھی مشکل ہے کہ اگر آج یہ اجازت چین کو دی جاتی ہے تو کل کوئی اور ملک بھی پاکستان میں اپنے مفادات کی نگرانی کے لیے اپنی فوج یا سیکیورٹی تعینات کرنے کا مطالبہ کرسکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ چین کو پاکستان میں درپیش سیکیورٹی چیلنجز کا ادراک ہے۔ لیکن اس کے باوجود اسے اپنی فوج یا سیکورٹی گارڈز تعینات کرنے کے مطالبے سے پیچھے ہٹ کر پاکستانی سیکورٹی فورسز کی استعداد کار بڑھانے اور انٹیلی جینس میں مدد فراہم کرنی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ سی پیک اور دیگر منصوبوں پر کام تیز ہونا صرف چین کی نہیں بلکہ پاکستان کے مفاد میں بھی ہے اور اسی لیے دونوں اقوام کو مل کر ان منصوبوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اسفندیار میر کا کہنا ہے کہ پاکستان ایک پیچیدہ خطے میں واقع ہے جس کے تعلقات اپنے ہمسایہ ممالک سے بہتر نہیں جبکہ ملک میں بلوچ لبریشن آرمی اور دیگر کالعدم تنظیموں کی کارروائیوں کے اثرات بھی نمایاں ہیں۔
ان کے بقول بدقسمتی سے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں امن و امان کے مسائل آئندہ چند سال تک جاری رہیں گے۔ اس لیے چینی شہریوں پر حملوں کا مکمل تدارک طویل المعیاد ہدف تو ہوسکتا ہے ان پر فوری قابو پانا مشکل نظر آتا ہے۔
فورم