رسائی کے لنکس

جب لتا منگیشکر ’پرنسز آف ڈونگرپور‘ بنتے بنتے رہ گئیں


شہرہ آفاق شخصیات کی اپنی نجی زندگی بھی ایک طرح سے عوامی ہو جاتی ہے اور ان کا کوئی بھی راز راز نہیں رہتا۔

لتامنگیشکر کی زندگی بھی عام لوگوں کے لیے ایک کھلی کتاب کی مانند تھی تاہم اس کتاب میں ایک ایسا باب بھی ہے جو عام لوگوں اور ان کے چاہنے والوں سے تقریباً مخفی ہی رہا۔ حالانکہ کچھ حلقوں میں اس پر بہت احترام کے ساتھ گفتگو ہوتی رہی ہے۔

یہ معاملہ معروف بھارتی کرکٹر اور بھارتی کرکٹ ٹیم کے سابق منیجر راج سنگھ ڈونگرپور اور لتا منگیشکر کی محبت کا ہے۔ دونوں میں بہت قریبی اور جذباتی رشتہ تھا لیکن اس رشتے کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔

ڈونگرپور راجستھان کی ایک ریاست تھی اور راج سنگھ اس ریاست کے راجکمار یا شہزادے تھے۔

راج سنگھ ڈونگرپور کی بہن کی بیٹی راجیہ شری نے اپنی یادداشت ’پیلس آف کلاؤ ز: اے میموائر‘ میں دونوں کے رشتوں پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ یادداشت 2018 میں شائع ہوئی تھی۔

وہ اپنی اس یادداشت میں لکھتی ہیں کہ لتا منگیشکر کے چھوٹے بھائی ہردے ناتھ منگیشکر کرکٹ کے دیوانے تھے۔ راج سنگھ ڈونگرپور سے ان کی دوستی ہو گئی اور ان کے توسط سے لتا منگیشکر اور ڈونگرپور میں تعارف ہوا۔


یادداشت کے مطابق دونوں کے رشتے آگے بڑھتے گئے اور ان میں جذبات کی آمیزش ہو گئی اور یہ رشتہ اتنا آگے بڑھا کہ دونوں نے شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔

باخبر لوگوں کا خیال ہے کہ لتا منگیشکر ’پرنسز آف ڈونگرپور‘ بننے کی خواہش مند تھیں۔ لیکن ان کی قسمت میں یہ خطاب نہیں تھا۔

راج سنگھ ڈونگرپور ریاست ڈونگرپور کے مہاراجہ کے تیسرے فرزند تھے۔ ان کی تینوں بہنوں کی شادی شاہی خاندانوں میں ہوئی تھی اور ایسی امید کی جا رہی تھی کہ راج سنگھ بھی اس روایت کی پابندی کریں گے اور اپنی شادی کسی شاہی خاندان میں کریں گے۔

راجیہ شری کے مطابق ان کی والدہ اور خالہ ان دونوں کے رشتے کے یکسر خلاف تھیں۔ راجیہ شری کی والدہ سشیلا سنگھ کی شادی راجستھان کے شہر بیکانیر کے آخری مہاراجہ ڈاکٹر کرنی سنگھ سے ہوئی تھی جو پارلیمنٹ کے رکن بھی رہے۔

راجیہ شری اپنی یادداشت میں مزید لکھتی ہیں کہ ’دونوں کے تعلقات کے سلسلے میں گفتگو کرنے کے لیے لتا منگیشکر کو ممبئی کے پرانے بیکانیر ہاؤس میں مدعو کیا گیا تھا۔ ان کے مطابق مجھے شبہ ہے لیکن میں اس کی تصدیق نہیں کر سکتی کہ لتا سے کہہ دیا گیا تھا کہ ان مہارانیوں کے بھائی کو تنہا چھوڑ دیں۔ تاکہ وہ اپنے لیے ایک اہل رانی کی تلاش کر سکیں۔


ان کے مطابق نہ صرف یہ کہ ڈونگرپور کا شاہی خاندان بلکہ اس خاندان سے منسلک دیگر شاہی خاندان کے افراد بھی اس شادی کے خلاف تھے۔

جب ڈونگرپور نے لتا اور اپنے بارے میں اپنے والد مہاراجہ لکشمن سنگھ کو بتایا تو انہوں نے اس رشتے کو فوراً مسترد کر دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ لتا منگیشکر کا تعلق کسی شاہی خاندان سے نہیں تھا۔

دہلی کے ایک سینئر اسپورٹس رائٹر اور راج سنگھ ڈونگرپور کے بارے میں متعدد مضامین اور ان کے انتقال کے بعد ان کی حیات و خدمات پر مضمون قلمبند کرنے والے سید پرویز قیصر کہتے ہیں کہ دونوں میں جذباتی رشتہ تھا لیکن اس کے بارے میں مخصوص حلقوں کو ہی علم تھا۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بعض اوقات انہوں نے بھی اسپورٹس صحافیوں اور کچھ کرکٹرز کی زبانی اس بارے میں سنا تھا۔ لیکن اس پر کھل کر کوئی گفتگو نہیں کرتا تھا۔

ان کے مطابق راج سنگھ ڈونگرپور نے پوری زندگی شادی نہیں کی اور کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ شاید اس کی وجہ یہ رہی کہ لتا منگیشکر سے ان کا تعلق رشتہ ازدواج میں تبدیل نہیں ہو سکا۔

انہوں نے بتایا کہ راج سنگھ ڈونگرپور اور لتا منگیشکر تازندگی غیر شادی شدہ رہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جب شاہی خاندان نے اس شادی کی اجازت نہیں دی تو ڈونگرپور نے شادی نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا اور شاید لتا منگیشکر نے بھی اسی لیے شادی نہیں کی۔

دہلی کے ایک سینئر صحافی رشید قدوائی نے لتا منگیشکر پر تحریر کردہ اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ لتا اور ڈونگرپور کے درمیان یقیناً محبت کا رشتہ تھا۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے تاحیات وفادار اور غیر شادی شدہ رہے۔


ان کے مطابق 2009 میں ڈونگرپور کے انتقال کے بعد اس افسانے کا باب بند ہو گیا۔

رشید قدوائی کے مطابق راجیہ شری اس افواہ کو مسترد کرتی ہیں کہ دونوں نے خفیہ طریقے سے شادی کر لی تھی۔ لیکن وہ اتنا ضرور لکھتی ہیں کہ اس حوالے سے شاہی خاندانوں کی بے رخی کے باوجود خاندان کے بعض افراد ان کی حمایت کرتے رہے ہیں۔

ان کے مطابق ڈونگرپور نجی ملاقات میں لتا منگیشکر کو ’مٹھو‘ کے نام سے پکارتے تھے۔

’پتریکا ڈاٹ کام‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق لتا منگیشکر کے شادی نہ کرنے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ لتا اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں۔ کم عمری میں ہی بہنوں مینا، آشا اور اوشا اور بھائی ہردے ناتھ منگیشکر کی پرورش کی ذمہ داری ان پر آن پڑی تھی۔ وہ ان کی تعلیم اور کرئیر کے سلسلے میں مصروف رہیں اور شادی کے لیے وقت نہیں ملا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG