رسائی کے لنکس

پاکستان میں تہواروں کے موقع پر غذائی اشیا کی قیمتیں کیوں بڑھ جاتی ہیں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے معاشی مرکز اور سب سے بڑے شہر کراچی کے علاقے کورنگی میں رہائش پذیر محمودہ بیگم نے جب چند روز قبل عید کی تیاری کے لیے مارکیٹ کا رخ کیا تو انہیں سبزیاں، پھل اور مسالہ جات پہلے کی نسبت مہنگے ملے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہیں اس پر کوئی خاص حیرانی نہیں ہوئی کیوں کہ عید سے قبل اکثر اشیائے خورونوش مہنگے داموں ہی فروخت ہوتی ہیں۔

محمودہ بیگم کہتی ہیں کہ ''ٹماٹر، دھنیا، پودینہ، گرم مسالہ، کھانے کا تیل، دالیں اور چاول سب ہی مہنگا ہو چکا ہے۔ ہمارے بجٹ سے بہت سی اشیا آؤٹ ہو جاتی ہیں۔ ایسے میں صرف ضرورت کی اشیا ہی لے کر گھر جانا پڑتا ہے''۔

ادارۂ شماریات کے مطابق ملک میں گزشتہ دو برسوں یعنی سال 2019 اور 2020 میں مہنگائی کی شرح جنوبی ایشیا کے تمام دیگر ممالک سے زیادہ رہی۔ یہی نہیں بلکہ گزشتہ برس ایک موقع پر پاکستان میں دنیا سب سے زیادہ مہنگائی کی شرح بھی نوٹ کی گئی۔ جنوری 2020 میں ملک میں مہنگائی کی شرح 14.6 فی صد ریکارڈ کی گئی جو ملک کی تاریخ کے گزشتہ 12 برسوں میں سب سے زیادہ شرح تھی۔

البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ تہواروں کے موقع پر اشیا بالخصوص کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔

پاکستان کے مرکزی بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ملک میں گزشتہ مالی سال کی پہلی تین سہ ماہیوں میں اوسط عمومی مہنگائی گزشتہ سال کی نسبت کم ریکارڈ کی گئی۔ جس میں غذائی گروپ اور مرغبانی گروپ کی قیمتوں میں کمی نمایاں تھی۔ تاہم بجلی، شکر، خوردنی تیل، سوتی کپڑے اور تیار ملبوسات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے فروری اور مارچ 2021ء کے دوران مہنگائی میں اضافہ کیا۔

مرکزی بینک کی ایک اور رپورٹ کے مطابق ملک میں جون 2021 کے دوران مہنگائی کی شرح 9.7 فی صد ریکارڈ کی گئی۔ جب کہ اپریل میں یہ شرح 10.9 فی صد تھی۔ گزشتہ ماہ کے اختتام پر ملک میں گندم، چاول، گوشت، دودھ، پیاز، ٹماٹر اور ادرک کی قیمتوں میں اضافہ دیکھا گیا۔ البتہ دالوں، مرغی کے گوشت سمیت چینی کی قیمت میں معمولی کمی ریکارڈ کی گئی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں اوسط مہنگائی کی شرح میں دودھ تیسرے نمبر جب کہ تیار غذائی اشیا پانچویں نمبر پر حصے دار ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں اوسط مہنگائی کی شرح میں دودھ تیسرے نمبر پر جب کہ بنی بنائی غذائی اشیا پانچویں نمبر پر حصے دار ہیں۔ اسی طرح مسالہ جات، گوشت اور بناسپتی گھی کے مہنگے ہونے کی شرح بھی بلند رہی۔

موسمیاتی تبدیلیاں اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ بنیادی وجہ؟

ماہرِ اجناس شمس اسلام کے خیال میں ملک میں غذائی اشیا مہنگی ہونے کی کئی وجوہات ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک جانب موسمیاتی تبدیلیاں ہیں جن کی وجہ سے پیداوار میں کمی واقع ہو رہی ہے اور پاکستان کو گندم، چینی، دالیں، کھانا پکانے کا تیل اور دیگر غذائی اشیا باہر سے منگوانا پڑ رہی ہیں اور اس پر کثیر غیر ملکی زرِمبادلہ خرچ ہوتا ہے۔

ان کے بقول، صرف جون میں پاکستان نے 79 کروڑ ڈالرز سے زائد کی غذائی اشیا درآمد کیں جب کہ گزشتہ برس اس کی مالیت آٹھ ارب 34 کروڑ ڈالرز سے زائد رہی تھی۔

البتہ ان کے خیال میں اس کی وجہ صرف موسمیاتی تبدیلیاں ہی نہیں بلکہ زراعت کو جدید طریقے پر استوار نہ کرنے کی وجہ سے بھی پیداوار میں کمی ہو رہی ہے جب کہ دوسری جانب آبادی میں اضافہ بدستور جاری ہے۔

شمس اسلام کے مطابق اس وقت اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کی ایک اور وجہ ٹرانسپورٹ کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہے۔ ایک جانب تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے تو دوسری جانب عید الاضحیٰ کے موقع پر دیہات سے شہروں میں سبزیاں اور دیگر اجناس لانے والے جانوروں کو زیادہ لاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے کرائے بڑھ جاتے ہیں اور اس کا اثر اشیا کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں پڑتا ہے۔

'کسان منڈیاں قائم کرکے آڑھتی کے کردار کو ختم کرنے کی ضرورت'

ماہرِ اجناس نے ایک اور چیز کی جانب بھی نشان دہی کی کہ اس وقت مارکیٹوں یا اجناس کی منڈیوں میں اصل کردار آڑھتیوں کا ہے، جنہیں کمیشن ایجنٹ یا مڈل مین بھی کہا جاتا ہے۔

ان کے بقول جب تک ان مڈل مینز کا کردار ختم یا کم سے کم نہیں کیا جاتا اس وقت تک ذخیرہ اندوزی، مہنگائی اور کارٹلز کا کردار ختم نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے بتایا کہ اس کا حل دنیا بھر میں کسان منڈیوں کی صورت میں ہوتا ہے۔ جہاں حکومتیں کسانوں کو لیز پر دکانیں اور دیگر سہولیات دیتی ہیں جس سے ایک جانب انہیں اپنے مال کی بہتر قیمت ملتی ہے تو دوسری جانب شہریوں کو سستی غذائی اشیا دستیاب ہوتی ہیں۔

لیکن پاکستان میں کسان منڈیاں نہ ہونے کی وجہ سے آڑھتی سب سے زیادہ منافع کماتے ہیں۔ ایسے میں کسان اور عام خریدار ہمیشہ گھاٹے ہی میں رہتے ہیں۔ اور مڈل مین کھانے پینے کی اشیاء جب چاہیں مہنگی کردیتے ہیں۔

ذخیرہ اندوزی، اجارہ داری کے خلاف کارروائی کی ضرورت

ماہر معاشیات عبدالعظیم کہتے ہیں کہ صوبائی سطح پر قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے فعال طریقہ کار بنانے کی بھی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔

ان کے بقول اس بارے میں کوئی بہتر میکنزم نہ ہونے اور قانون پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے عوام ذخیرہ اندوزوں کے ہاتھوں لٹ رہے ہوتے ہیں جب کہ حکومت اکثر خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہوتی ہے۔

علاوہ ازیں اس بات کی نشان دہی مرکزی بینک نے بھی اپنی رپورٹ میں کی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ملک میں غذائی مہنگائی کو کم کرنے کے لیے مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔ یہ مہنگائی زرعی اجناس کے انتظام میں بنیادی طور پر رسدی مسائل کی وجہ سے زور پکڑتی جاتی ہے۔ خوراک کے وفاقی اور صوبائی محکموں کے درمیان بہتر رابطوں، مستند اعداد و شمار کی فراہمی، ذخیرہ اندوزی کی حوصلہ شکنی اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں کی چوکس نگرانی اور اجناس کی بروقت درآمد سے یہ کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کاشت کاری اور فصلوں کے انتظام کے بہتر اور جدید طریقوں کو اپنا کر زراعت میں زیادہ سے زیادہ خود کفالت حاصل کی جا سکتی ہے، جب کہ مناسب ذخائر برقرار رکھنے سے ایک طرف ملک میں اجناس کی قلت کو دور کیا جا سکتا ہے تو دوسری طرف قیمتوں کے عارضی دباؤ کا مقابلہ کرنے کی خاطر اجناس (جیسے گندم، گنے اور کپاس) درآمد کرنے کی ضرورت کو بھی کم کیا جاسکتا ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG