رسائی کے لنکس

ٹی ٹی پی نے چترال کو کیوں ٹارگٹ کیا؟


خیبرپختونخوا کے ضلع چترال میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے سرحدی پوسٹوں پر حملے کے بعد ایک مرتبہ پھر پڑوسی ملک افغانستان پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔

بدھ کی علی الصباح ٹی ٹی پی کے درجنوں جنگجوؤں نے سرحدی پوسٹوں پر حملہ کیا تھا۔ مقامی انتظامیہ کے مطابق دہشت گرد افغانستان کے صوبہ نورستان اور کنڑ سے آئے تھے تاہم دو طرفہ فائرنگ کے تبادلے میں چار سیکیورٹی اہلکار اور 12 دہشت گرد ہلاک ہوئے۔

پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ(آئی ایس پی آر) کے مطابق دہشت گردوں نے چترال کے ضلع کالاش میں افغانستان کی سرحد کے قریب واقع پاکستان فوج کی دو چوکیوں پر حملہ کیا۔

بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ چیک پوسٹوں پر حملے سے قبل افغانستان کی عبوری حکومت کو نورستان اور کنڑ کے علاقوں گووردیش، پتیگال، برگ متل اور بتاش میں دہشت گردوں کی نقل و حرکت اور موجودگی کی اطلاعات دے دی تھیں۔

کالعدم ٹی ٹی پی نے بدھ کو حملے کے بعد چترال کے کئی سرحدی دیہات پر قبضے کا دعویٰ کیا تھا۔

چترال سے تعلق رکھنے والے صحافی ارشاد اللہ خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افغانستان کی جانب سے عسکریت پسندوں کی دراندازی اور لڑائی کا یہ سلسلہ صبح پانچ بجے شروع ہوا تھا۔

ان کے بقول، "عسکریت پسند پاک افغان سرحد پر واقع استوئی پاس کے راستے حملہ آور ہوئے۔ ان کے نشانے پر بمبورت، استوئی، ارسون اور جنجیرت کوہ کے سرحدی گاؤں تھے۔"

ڈپٹی کمشنر لوئر چترال محمدعلی خان نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ سیکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی سے عسکریت پسندوں کو بھاری جانی نقصان پہنچا ہے اور اب علاقے میں صورتِ حال پوری طرح سے کنٹرول میں ہے۔

محمد علی خان نے مزید بتایا کہ ضلع سے ملحق پاک افغان سرحد فی الوقت آمدورفت کے لیے سیل کر دی گئی ہے۔

مقامی صحافی ارشاد علی خان کہتے ہیں گزشتہ چند روز سے ارسون، سویرگول سمیت بمبوریت کے علاقوں میں سرچ آپریشن کیے جا رہے تھے۔ ممکنہ طور پر سیکیورٹی فورسز کے پاس ایسی اطلاعات تھیں کہ ان علاقوں میں کوئی کارروائی ہو سکتی ہے۔ ٹی ٹی پی کی کارروائی کے بعد اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ سرحدی علاقوں میں نفری مزید بڑھا دی گئی ہے۔

چترال کو کیوں ٹارگٹ کیا گیا؟

چترال میں سرحد پار سے دراندازی کی بنیادی وجہ چترال کا سرحدی جغرافیہ ہے۔ ضلع چترال گلگت بلتستان کی سرحد پر واقع ہے اور افغانستان کے ساتھ چترال کا بارڈر سنگلاخ چٹانوں پر مشتمل ہے۔

سرحد پار افغان صوبہ کنڑ ہے جہاں پورے مالاکنڈ ڈویژن (جس میں سوات، دیر، شانگلہ، بونیر اور خود مالاکنڈ کے اضلاع شامل ہیں) سے تعلق رکھنے والی ٹی ٹی پی کی قیادت اور جنگجوؤں نے پناہ لی تھی۔ ان میں ٹی ٹی پی کے بانی کمانڈر ملافضل اللہ بھی شامل تھے۔

افغانستان کے تین صوبے کنڑ، نورستان اور بدخشان وہ علاقے ہیں کہ جہاں ماضی میں روسی اور بعد ازاں امریکی اتحادی افواج کے لیے بھی اس کا کنٹرول برقرار رکھنا خاصا مشکل رہا تھا۔ اس لیے ان علاقوں میں اس وقت پاکستانی طالبان کے لیے بھی محفوظ ٹھکانے موجود ہیں۔

پاکستانی طالبان کے علاوہ ان علاقوں میں داعش کی موجودگی بھی اطلاعات بھی آتی رہی ہیں جن کے خلاف افغان طالبان وقتاً فوقتاً آپریشنز کرتے رہے ہیں۔

بمبوریت کی جس وادی میں عسکریت پسندوں نے بدھ کو فوجی پوسٹوں پر حملے کیے وہ جغرافیائی اعتبار سے افغانستان کے دو صوبوں کنڑ اور نورستان کی سرحدوں کے قریب ہیں۔ یہاں کی کیلاش ثقافت تاریخی اور تہذیبی شناخت رکھتی ہے۔ یہاں مقیم افراد کو مقامی طور پر "کافرستان" کے لوگوں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔

کیلاش تہذیب کی بنیاد افغانستان کے صوبہ نورستان میں ہی تھی تاہم بعد ازاں ان پر حملوں کے باعث یہ لوگ پاکستان کے ضلع چترال منتقل ہوگئے تھے۔

فرقہ پرستی پر مبنی عسکریت پسندی کے حوالے سے گلگت بلتستان کافی حساس ہے اس وجہ سے بھی افغانستان میں موجود عسکریت پسند تنظیموں کے لیے چترال خاصی اہمیت رکھتا ہے۔

سال 2014ء میں ہی عسکریت پسندوں کی جانب سے ایک ویڈیو جاری کی گئی تھی جس میں کیلاشی لوگوں کو دھمکی دی گئی تھی کہ وہ اسلام قبول کر لیں۔ اس وڈیو میں اسماعیلی مکتبہ فکر کے ماننے والوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

کیا ماضی میں چترال عسکریت پسندی کا نشانہ بنا ہے؟

چترال کے مقامی صحافی ارشاد اللہ خان کے مطابق دہشت گردوں کی جانب سے ماضی میں بھی وقتاً فوقتاً اس طرح کے حملے ہوتے رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ "اگست 2011ء میں یہاں افغانستان سے عسکریت پسندوں نے تین سیکیورٹی چیک پوسٹوں پر حملہ کیا تھا جن میں 26 سیکیورٹی اہلکار مارے گئے تھے۔ نامعلوم حملہ آوروں نے ستمبر 2018 میں چترال کے علاقے ارندو میں لڑکیوں کے ایک اسکول کو بم سے اڑا دیا تھا۔

اس سے قبل اگست 2018ء میں گلگت بلتستان کے علاقے دیامر میں نامعلوم افراد نے لڑکیوں کے لیے قائم 12 اسکول جلا دیے تھے ۔

صحافی ارشاد کے مطابق ارندو کے مقام پر پاک افغان سرحد پر سیکیورٹی فورسز کی باقاعدہ آمد کے بعد یہ واقعات بند ہو گئے تھے۔

  • 16x9 Image

    سید فخر کاکاخیل

    سید فخرکاکاخیل دی خراسان ڈائری اردو کے ایڈیٹر ہیں۔ وہ مختلف مقامی، ملکی اور غیرملکی صحافتی اداروں کے  لیے پشتو، اردو اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ اس سے قبل وہ مختلف ٹی وی چینلز کے ساتھ انتظامی عہدوں پر رہ چکے ہیں۔ زیادہ تر وہ پاک افغان اور وسطی ایشیا میں جاری انتہا پسندی اور جنگ کے موضوعات کے علاوہ تجارتی مضامین بھی لکھتے ہیں۔ حال ہی میں ان کی کتاب "جنگ نامہ: گلگت سے گوادر اور طالبان سے داعش تک گریٹ گیم کی کہانی" کے نام سے شائع ہوئی ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG