رسائی کے لنکس

جی 20 اجلاس: کیا چینی صدر کی عدم شرکت بھارت کے لیے کوئی پیغام ہے؟


امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ جی 20 سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے اپنے بھارت کے دورے کے منتظر ہیں۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ کی اجلاس میں عدم شرکت پر مایوس ہیں۔

اتوار کو میڈیا نمائندوں کے سوالوں کے جواب میں صدر بائیڈن نے کہا کہ وہ بھارت جا رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ شی جن پنگ سے آئندہ ان کی ملاقات ہونے والی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق وہ رواں برس کے آخر میں امریکہ کے شہر سان فرانسسکو میں ہونے والے ’ایشیا پیسفک اکانومک کو آپریشن فورم‘ کے اجلاس کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔

وائٹ ہاؤس کے مطابق صدر بائیڈن سات ستمبر کو دہلی پہنچیں گے اور آٹھ ستمبر کو وزیرِ اعظم نریندر مودی کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات کریں گے جب کہ نو اور 10 ستمبر کو وہ جی 20 کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔

چینی وزارتِ خارجہ نے اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ صدر شی جن پنگ جی 20 اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے.

یاد رہے کہ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن بھی اجلاس میں شرکت نہیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس کی اطلاع بذریعہ فون وزیرِ اعظم مودی کو دے دی ہے۔

بھارت کے اسپیشل سیکریٹری برائے جی 20 مکتیش پردیشی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارت شی جن پنگ کے دورے کے سلسلے میں چین کی تحریری اطلاع کا منتظر ہے۔ جب تک چین کی جانب سے تحریری شکل میں کوئی چیز سامنے نہیں آجاتی، اس بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔

نئی دہلی کے سفارتی حلقوں میں اس معاملے کو بہت توجہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ وہ سربراہی اجلاس میں شی جن پنگ کی عدم شرکت کو بھارت کی جی 20 کی صدارت کو نظرانداز کرنے کے مترادف سمجھ رہے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق گزشتہ چار برس سے بھارت اور چین کے درمیان جاری سرحدی کشیدگی میں ایک بار پھر اضافہ ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ گزشتہ دنوں چین کی جانب سے نیا نقشہ جاری کرکے اکسائی چن اور اروناچل پردیش کو اپنا حصہ بتانا ہے۔

بھارت نے اس قدم کی سختی سے مذمت کی ہے اور اس نقشے کو ناقابلِ قبول قرار دیا ہے۔ فریقین کے درمیان مشرقی لداخ میں متعدد مقامات پر بالخصوص دیپسانگ اور ڈیمچوک پر تنازع برقرار ہے۔ حالاں کہ دونوں ملکوں کے درمیان ملٹری کمانڈرز کی سطح پر متعدد ادوار کے مذاکرات ہو چکے ہیں۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

تجزیہ کاروں کے درمیان شی جن پنگ کی عدم شرکت کے اسباب پر قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ دنوں جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں برکس سربراہی اجلاس کے دوران دونوں رہنماؤں کی غیر رسمی ملاقات ہوئی تھی اور یہ توقع کی جا رہی تھی کہ شی جن پنگ جی20 کے اجلاس میں شرکت کریں گے اور دونوں رہنماؤں کو سرحدی تنازعات کو حل کرنے کا ایک موقع ملے گا۔

'یہ بھارت کے لیے اچھا نہیں ہے'

عالمی امور کے سینئر تجزیہ کار شیخ منظور احمد کا کہنا ہے کہ گروپ بیس کے اجلاس کا انعقاد بھارت کے لیے بہت بڑا واقعہ ہے۔ بھارتی حکومت کو اس کا انتظار تھا اور وہ چاہتی تھی کہ یہ اجلاس مکمل طور پر کامیاب ہو۔ کیوں کہ اس کی کامیابی کا سہرا مودی حکومت کے سر جاتا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ولادیمیر پوٹن یوکرین جنگ اور دیگر گھریلو مسائل کی وجہ سے شرکت نہیں کر رہے ہیں۔ لیکن اب سمجھا جا رہا ہے کہ شی جن پنگ بھی نہیں آرہے ہیں۔

بقول ان کے ان دونوں بڑے رہنماؤں کی عدم شرکت بھارت کے لیے اچھی بات نہیں ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ بھارت جس پیمانے پر اجلاس کی کامیابی کی توقع کر رہا تھا اب وہ اتنا کامیاب نہیں ہوگا۔

وہ کہتے ہیں کہ چین امریکہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے۔ چین اورروس کے صدور کے نہ آنے سے اجلاس کی کامیابی پر اثر پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جو بائیڈن نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

تجزیہ کاروں کے خیال ہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان بھی متعدد تنازعات ہیں اور اگر چینی صدر اجلاس میں شرکت کرتے تو جو بائیڈن سے بھی ان کی ملاقات اور بات چیت کا امکان پیدا ہوتا اور فریقین کو باہمی تنازعات کو حل کرنے کا موقع ملتا۔

شیخ منظور کے مطابق گروپ بیس کے سربراہی اجلاس میں یوکرین کا معاملہ ایجنڈے میں سرفہرت ہے۔ روس اور چین کا موقف یوکرین کے بارے میں امریکہ اور مغربی ملکوں سے بالکل مختلف ہے۔ اگر وہ دونوں آتے تو یوکرین کے سلسلے میں ٹھوس گفتگو ہو سکتی تھی۔ لیکن ان کی عدم شرکت اجلاس کے فیصلوں پر بھی اثرانداز ہو گی۔

بعض تجزیہ کارر کہتے ہیں کہ ایسی قیاس آرائی کی جا رہی ہے کہ شی جن پنگ بھارت کو، جو کہ جی 20 اجلاس کے توسط سے یہاں کی ثقافت، تکثیریت اور معاشی قوت کا مظاہرہ کرنا چاہتا ہے، پریشانی میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی عدم شرکت سے بھارت کی سبکی ہو گی۔ اسی لیے انہوں نے نہ آنے کا فیصلہ کیا۔

'مودی اب کھل کر اپنی بات رکھ سکیں گے'

سابق سفارت کار اشوک سجنہار کا کہنا ہے کہ شی جن پنگ بعض سربراہوں جیسے کہ جو بائیڈن اور نریندر مودی کے ساتھ ملاقات اور مذاکرات کے تعلق سے الجھن میں رہے ہوں گے اس لیے بھی انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہو گا۔

تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کی عدم شرکت سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ جو کہ ایک بڑی قوت کے قائد ہیں، اس اجلاس کے حوالے سے اپنی عالمی ذمہ داریوں کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں۔

ان کے مطابق شی جن پنگ کا نہ آنا بھارت کے لیے اچھا ہی ہے۔ کیوں کہ ان کی آمد پر میزبان اور قومی و عالمی میڈیا سب کی توجہ ان کی سرگرمیوں، بات چیت اور باڈی لینگویج پر رہتی۔

ان کے خیال میں اس صورت میں جی20 کے ایجنڈے پر خاطر خواہ تبادلۂ خیال سے توجہ ہٹ جاتی۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان کی غیر موجودگی میں وزیرِ اعظم مودی کھل کر اپنی بات رکھ سکیں گے۔

تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ آتے تو اچھا ہوتا۔ اس صورت میں بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازعے کو حل کرنے کا ایک موقع ملتا۔ اکتوبر 2019 کے بعد دونوں رہنماؤں کی مختصر ملاقاتیں گزشتہ سال نومبر میں بالی میں اور رواں سال جوہانسبرگ میں ہوئی ہیں۔ دہلی میں تفصیلی ملاقات کا امکان تھا۔

شیخ منظور بھی اس خیال کے حامی ہیں۔ ان کے مطابق اگر شی جن پنگ آتے تو دونوں ملکوں کے رہنماؤں کو اجلاس سے الگ ہٹ کر ملنے اور بات کرنے کے مواقع ملتے۔ ممکن ہے کہ دونوں کے درمیان سرحدی کشیدگی کو کم کرنے کے سلسلے میں بھی مذاکرات ہوتے اور اس سمت میں کوئی نہ کوئی پیش رفت ہوتی۔

دریں اثنا بھارتی فضائیہ نے جی20 اجلاس کے پیش نظر اعلان کیا ہے کہ وہ چین اور پاکستان کی سرحدوں سے متصل شمالی سیکٹر میں فوجی مشق کرے گی۔

خبررساں ادارے اے این آئی کے مطابق یہ مشق بڑے پیمانے پر ہوگی اور اس میں رافیل، میراج 2000 اور ایس یو 30 ایم کے آئی جیسے جنگی طیارے شرکت کریں گے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG