رسائی کے لنکس

بھارت: سیاسی جماعتوں کو بھاری چندہ دینے والا ’لاٹری کنگ‘ کون ہے؟


سینٹیاگو مارٹن (فائل فوٹو)
سینٹیاگو مارٹن (فائل فوٹو)

  • سینٹیاگو مارٹن کی غیر معروف کمپنی 'فیوچر گیمنگ اینڈ ہوٹل سروسز' نے پانچ سال کے دوران 13 ارب 68 کروڑ روپے چندہ دیا۔
  • کمپنی کی ویب سائٹ ’سینٹیاگو مارٹن چیریٹیبل ٹرسٹ‘ کے مطابق سینٹیاگو نے نو عمری میں میانمار کے یانگون میں ایک مزدور کی حیثیت سے کام کیا۔
  • مارٹن بھارت میں سب سے زیادہ ایک ارب روپے سالانہ ٹیکس دینے والے شخص ہیں۔

بھارت کے الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں گزشتہ پانچ برس کے دوران سیاسی جماعتوں کو چندہ دینے والوں کی تفصیلات جاری کر دی ہیں جس میں لاٹری کنگ سینٹیاگو مارٹن کا نام بھی سامنے آ رہا ہے۔

سینٹیاگو مارٹن کی غیر معروف کمپنی 'فیوچر گیمنگ اینڈ ہوٹل سروسز' نے پانچ سال کے دوران 13 ارب 68 کروڑ روپے چندہ دیا۔

تمل ناڈو کے شہر کوئمبٹور سے کام کرنے والی لاٹری کی کمپنی ’فیوچر گیمنگ‘ یہ تفصیلات عام ہونے کے بعد سے خبروں میں ہے۔

اس کمپنی کا پورا نام ’فیوچر گیمنگ اینڈ ہوٹل سروسز‘ ہے اور اس نے 12 اپریل 2019 سے 24 جنوری 2024 کے درمیان 13 ارب 68 کروڑ روپے کے بانڈز خریدے اور سیاسی پارٹیوں کو چندہ دیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ کمپنی 1991 میں قائم ہوئی۔ پہلے اس کا نام ’مارٹن لاٹری ایجنسیز لمٹیڈ‘ تھا۔ اسے سینٹیاگو مارٹن نامی ایک شخص نے قائم کیا جو آگے چل کر ’لاٹری کنگ‘ کہلائے۔ انھوں نے لاٹری کے ٹکٹ بیچنے اور خریدنے کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک قائم کر دیا۔

مزدور سے لاٹری کنگ تک

کمپنی کی ویب سائٹ ’سینٹیاگو مارٹن چیریٹیبل ٹرسٹ‘ کے مطابق سینٹیاگو نے نو عمری میں میانمار کے یانگون میں ایک مزدور کی حیثیت سے کام کیا۔ وہ 1988 میں بھارت لوٹ آئے اور تمل ناڈو میں راتوں رات امیر بننے کا خواب دیکھنے والوں کو لاٹری کے ٹکٹ بیچنے کا کاروبار شروع کیا۔

بعد ازاں انھوں نے کرناٹک، کیرالہ اور شمال مشرقی ریاستوں میں لاٹری کے ٹکٹ بیچنے شروع کر دیے۔ کیرالہ میں لاٹری کا کاروبار خوب چلتا ہے۔

بعد میں انھوں نے شمال مشرق میں حکومت کی لاٹری اسکیموں میں ہاتھ ڈالا۔ انھوں نے بھوٹان اور نیپال میں بھی اپنی کمپنی کی شاخیں کھول لیں اور وہاں بھی لاٹری کے ٹکٹ فروخت کرنے شروع کر دیے۔

آگے چل کر انھوں نے دوسرے شعبوں جیسے کہ تعمیرات، رئیل اسٹیٹ، ٹیکسٹائل، اسپتال، ٹیکنالوجی وغیرہ میں بھی کاروبار شروع کیا۔

سالانہ بزنس 20 ہزار کروڑ روپے

کمپنی کا دعویٰ ہے کہ 2022-2021 میں اس کا سالانہ بزنس 20 ہزار کروڑ روپے کا تھا۔ اس نے 2017 میں مغربی بنگال حکومت کو خرید و فروحت پر دیے جانے والے ٹیکس ’جی ایس ٹی‘ کے مد میں 6000 کروڑ روپے ادا کیے۔

مارٹن بھارت میں سب سے زیادہ ایک ارب روپے سالانہ ٹیکس دینے والے شخص ہیں۔ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ وہ بلاواسطہ اور بالواسطہ 10 لاکھ افراد کو روزگار دے رہی ہے۔

کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق مارٹن ’آل انڈیا فیڈریشن آف لاٹری ٹریڈ اینڈ الائڈ انڈسٹری‘ کے صدر ہیں۔ ان کی کمپنی باوقار ’ورلڈ لاٹری ایسو سی ایشن‘ کی رکن ہے۔ کمپنی نے آن لائن گیمنگ، کیسینو اور کھیل کی سٹے بازی میں بھی قدم رکھ دیا۔ وہ ’ایشیا پیسفک لاٹری ایسو سی ایشن‘ کی بھی رکن ہے۔

’فیوچر گیمنگ‘ پہلی لاٹری کمپنی ہے جس نے مختلف حکومتوں کی جانب سے ان کے ذریعے ٹکٹوں کی قرعہ اندازی کے لائیو ٹیلی کاسٹ کا راستہ ہموار کیا۔

’فاونڈیشن فار ایکسلنس اِن بزنس پریکٹس جنیوا‘ نے سینٹیاگو مارٹن کو 2004 میں شاندار بزنس کے لیے طلائی تمغہ دیا۔

رپورٹس کے مطابق تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں اور ان کے رہنماؤں سے ان کے دوستانہ مراسم ہیں۔ وہ تمل ناڈو میں برسراقتدار جماعت ’دراوڑ مونیترا کژگم‘ (ڈی ایم کے) کے اور کیرالہ میں حکمراں ’لیفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ‘ (ایل ڈی ایف) کے قریب ہیں۔

سینٹیاگو مارٹن مختلف ریاستوں میں خاص طور پر کیرالہ میں سیاسی جماعتوں کو چندہ دینے کے معاملے میں تنازعات میں بھی گھرے رہے ہیں۔ ان پر سکم حکومت کو 4500 کروڑ روپے کا دھوکہ دینے کا بھی الزام ہے۔

اخباری رپورٹوں کے مطابق مارٹن سیاسی ہوا پہچاننے میں ماہر ہیں۔ جب 2014 میں ان کو محسوس ہوا کہ ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) انتخابات میں کامیاب ہونے والی ہے تو ان کا جھکاؤ اس کی جانب ہو گیا اور ان کی اہلیہ وزیرِ اعظم کے عہدے کے امیدوار نریند رمودی کے ساتھ اسٹیج پر دیکھی گئیں۔

ان کے چھوٹے بیٹے چارلس نے 2015 میں بی جے پی میں شمولیت اختیار کی۔ انھوں نے تمل ناڈو کے سابق وزیر اعلیٰ اور ڈی ایم کے کے بانی کروناندھی پر ایک فلم بھی بنائی۔

مارٹن کی کمپنی پر ، منی لانڈرنگ کی روک تھام کے ادارے’انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ‘(ای ڈی) کی نظر پڑی۔ اس نے 2016 سے کمپنی کی نگرانی شروع کر دی۔ دو سال بعد ’سینٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن‘ (سی بی آئی) نے اس پر چھاپا مارا۔

ای ڈی نے 2023 میں مارٹن کے 457 کروڑ روپے ضبط کر لیے۔ جب کہ اس نے 2021 میں کمپنی کے 19.5 کروڑ روپے ضبط کیے تھے۔ اسی سال اس کے 70 ٹھکانوں پر چھاپے ڈالے گئے تھے۔

ای ڈی نے 2015 میں مغربی بنگال کے مقام سلی گوڑی میں مارٹن کے گھر سے 100 کروڑ روپے ضبط کیے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس کا استعمال بہار کے اسمبلی انتخابات میں ہونے والا تھا۔

مارٹن کو 2012 میں غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا تھا۔

بھارت کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس نے الزام لگایا ہے کہ الیکٹورل بانڈز کی تفصیلات عام ہونے سے بی جے پی کے ’بدعنوان ہتھکنڈے‘ بے نقاب ہو گئے ہیں۔ اس نے بی جے پی پر کمپنیوں کے تحفظ کے لیے ان سے چندہ لینے کا الزام بھی لگایا ہے۔

پارٹی کے سینئر رہنما جے رام رمیش نے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ 13000 سے زائد کمپنیوں اور افراد نے الیکٹورل بانڈز کے توسط سے چندہ دیا ہے۔ 2019 کے بعد سے بی جے پی کو 6000 کروڑ روپے ملے ہیں۔

انھوں نے مختلف کمپنیوں کی مثال پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ای ڈی کے چھاپوں کے بعد کیسے چندہ دیا گیا۔ ان کے مطابق ای ڈی نے دو اپریل 2022 کو فیوچر گیمنگ کمپنی پر چھاپا ڈالا اور پانچ روز بعد یعنی سات مارچ کو اس نے 100 کروڑ روپے کے بانڈز خرید کر چندہ دیا۔

بھارتی حکومت کا ردِعمل

وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے کہا ہے کہ الیکٹورل بانڈز کے ذریعے جو چندہ دیا گیا اس کو ای ڈی کے چھاپوں سے جوڑنا ایک خیالی بیانیہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس سے قبل سیاسی جماعتوں کو چندے کا نظام مکمل طور پر ناقص تھا۔

انھوں نے ’انڈیا ٹوڈے کنکلیو‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کمپنیوں نے چندہ دیا اور اس کے بعد بھی ای ڈی کے چھاپے پڑ رہے ہیں تو اسے کیا کہیں گے۔ یہ ایک خیالی بات ہے کہ ای ڈی نے چھاپہ ڈالا اور خود کو بچانے کے لیے چندہ دیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ دوسری خیالی بات بی جے پی کو چندہ ملنے سے متعلق ہے۔ کیا آپ کو یقین ہے کہ انھوں نے بی جے پی کو چندہ دیا۔ ممکن ہے کہ انھوں نے علاقائی پارٹیوں کو دیا ہو۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG