رسائی کے لنکس

انخلا کے دوران افغان ساتھیوں کو بے سہارا چھوڑ دیا گیا، برطانوی دفتر خارجہ کے سابق ملازم کا الزام


اگست کے وسط میں انخلا کے دوران کابل کے ہوائی اڈے پر لوگوں کا ہجوم۔ (فائل فوٹو)
اگست کے وسط میں انخلا کے دوران کابل کے ہوائی اڈے پر لوگوں کا ہجوم۔ (فائل فوٹو)

برطانیہ کے دفتر خارجہ کے ایک سابق ملازم نے الزام لگایا ہے کہ اگست میں کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد انخلا کے معاملے پر ''غیر فعال اور یک طرفہ'' اقدامات کیے گئے، جس دوران، مبینہ طور پر، برطانیہ کے دفتر خارجہ نے افغانستان میں اپنے ساتھیوں کی امداد کا کام ترک کر کے انھیں طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔

'وسل بلور' (خبردار کرنے والے فرد کا کردار ادا کرتے ہوئے)، رافیل مارشل نے یہ بات منگل کے روز پارلیمانی کمیٹی کے روبرو چونکا دینے والی شہادت دیتے ہوئے کہی۔ انھوں نے الزام لگایا کہ 21 سے 25 اگست کے دوران ہزاروں کی تعداد میں مدد کی درخواست پر مبنی اِی میلز بھیجی گئیں جنھیں مبینہ طور پر پڑھنے تک کی زحمت بھی گوارہ نہیں کی گئی۔

رافیل مارشل کے مطابق، 'یو کے پروگرام' کے تحت انخلا کی درخواستیں دینے والے افغانوں میں سے صرف پانچ فی صد کو مدد فراہم کی گئی۔

انھوں نے بتایا کہ اس دوران ایک وقت ایسا بھی آیا جب اِی میلز کے 'اِن باکس' کو چیک کرنے کے کام پر صرف وہی اکیلے تعینات تھے۔

انھوں نے امور خارجہ کی 'سیلیکٹ کمیٹی' کو ایک تحریری بیان میں بتایا کہ ''عام طور پر اِن باکس میں نہ پڑھی گئی اِی میلز کی تعداد 5000 ہوا کرتی تھی، جن میں وہ اِی میلز بھی شامل تھیں جو اگست کے اوائل میں بھیجی گئی تھیں''۔ یہ سیلکٹ کمیٹی افغانستان سے برطانیہ کے انخلا میں مبینہ بدنظمی کے الزام کی جانچ پڑتال کر رہی ہے۔

بقول ان کے، ''یہ ای میلز فوری نوعیت کی تھیں جن میں مایوسی کا اظہار کیا گیا تھا۔ ان ای میلز میں اس قسم کی جملے عام تھے کہ ''برائے مہربانی، ہمارے بچوں کو بچا لو''۔ مارشل نے کہا کہ جن حامیوں کو ہم بے سہارا چھوڑ آئے، ان میں سے کئی ایک کو طالبان نے بعد ازاں مبینہ طور پر ہلاک کر دیا ہے۔

مارشل نے سب سے بڑا الزام یہ عائد کیا کہ برطانوی اہل کاروں نے کابل کے جانوروں کے شیلٹر سے 200 کتوں اور بلیوں کے انخلا میں مدد دینے کے لیے اپنا وقت اور توانائی صرف کی، جسے 'نوزاد' نامی اینیمل شیلٹر چلاتا تھا، جس کی بنیاد سابق 'رائل میرین'، پین فاردنگ کے عطیات سے رکھی گئی تھی۔

مارشل نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ دفتر خارجہ کے عملے کو وزیر اعظم سے خصوصی ہدایت موصول ہوئی تھی کہ وہ 'نوزاد' شیلٹر کے جانوروں کو بھجوانے میں حتی الوسع مدد کریں۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ برطانوی سپاہیوں نے کابل سے جانوروں کی منتقلی کو یقینی بنانے کے لیے مبینہ طور پر اپنی جانیں خطرے میں ڈالیں۔

وزیر اعظم بورس جانسن کے ترجمان، میکس بلین نے کہا ہے کہ یہ الزام ''صریحاً غلط '' ہے، نہ تو بورس جانسن نہ ان کی بیگم، کیری جانوروں کے بہبود کی وکیل ہیں، جنھوں نے جانوروں کو ملک سے نکالنے میں کوئی کردار ادا کیا۔

انھوں نے کہا کہ فاردنگ اور ان کے جانور افغانستان سے ایک نجی چارٹرڈ پرواز سے برطانیہ لائے گئے جس کی اجازت برطانوی عہدے داروں نے دی تھی۔

برطانوی وزیر اعظم کے ترجمان میکس بلین نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ چارٹر فلائٹ اسی لیے استعمال ہوئی کہ لوگوں کے انخلا کا کام جاری تھا اور اس ضمن میں ہماری استعداد کم پڑ گئی تھی۔

ان کے بقول، اگست میں جب طالبان نے افغانستان میں کنٹرول سنبھالا تو امریکہ، برطانیہ اور دیگر ملکوں نے افغانوں کے انخلا کی پوری طرح کوشش کی، جو مغربی ملکوں کے ساتھ کام کرتے رہے تھے، تاکہ انھیں طالبان کے ہاتھوں پُرتشدد مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

برطانیہ نے دو ہفتوں کے اندر 15 ہزار افراد کی نقل مکانی کے لیے پروازوں کا سلسلہ جاری رکھا اور برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ بعد میں بھی حکومت نے افغانستان سے مزید تین ہزار افراد کو برطانیہ لانے میں مدد دی۔

تاہم، افغانوں کی دوبارہ آبادکاری کا نیا منصوبہ، جس کا برطانوی حکومت نے اگست میں اعلان کیا تھا اور جس کے تحت مزید 20 ہزار افراد کو برطانیہ منتقل کیا جانا تھا، اس پر ابھی عمل درآمد نہیں ہو پایا۔

ادھر برطانیہ کے دفتر خارجہ کے سابق سربراہ نے منگل کے روز اپنے ادارے کی جانب سے کابل سے انخلا کے معاملے میں اپنے ادا کردہ کردار کا دفاع کیا ہے۔

انھوں نے یہ بات ایسے وقت پر کہی ہے جب ایک 'وسل بلور' کی جانب سے اس سلسلے میں حکومت برطانیہ پر الزامات لگائے گئے ہیں۔

اسی سلسلے میں برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے منگل ہی کے روز اس دعوے کو غلط قرار دے کر مسترد کیا کہ اگست میں کابل سے انخلا کے معاملے پر ان کی شخصی مداخلت پر حکومت نے جانوروں کو لانے میں مدد فراہم کی۔

برطانیہ کے معاون وزیر اعظم، ڈومنک راب نے اس الزام کر مسترد کیا ہے کہ اس سے قبل اسی سال حکومت نے افغانستان سے انخلا کے دوران حکومت نے لوگوں کے انخلا پر جانوروں کو ترجیح دی، جیسا کہ دفتر خارجہ کے ایک سابق ملازم نے دعویٰ کیا ہے۔

XS
SM
MD
LG