رسائی کے لنکس

روس یوکرین تنازع میں بھارت کہاں کھڑا ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

یوکرین پر روس کے حملے نے دنیا کے کئی ممالک کو نئی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ اگرچہ بھارت اس معاملے میں غیر جانب دارانہ اور متوازن مؤقف اختیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن روس اور امریکہ دونوں سے ہی قریبی تعلقات کی وجہ سے وہ مخمصے کا شکار ہے۔

امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے اپنے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر سے فون پر بات کی اور یوکرین پر روسی حملے کی مذمت کے لیے سخت اجتمائی مؤقف اختیار کرنے پر زور دیا ہے۔

امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اینٹنی بلنکن نے یوکرین پر روس کے بلا اشتعال اور بے جواز حملے پر تبادلہ خیال کے لیے جے شنکر کو فون کیا اور افواج کی فوری واپسی اور سیز فائر کی اپیل کی۔

بھارت کے وزیرِ اعظم نریند رمودی نے جمعرات کی شب روس کے صدر ولادیمیر پوٹن سے ٹیلی فون پر بات کی اور روس اور یوکرین کے درمیان فوری طور پر تشدد بند کرنے پر زور دیا۔

انہوں نے فریقین سے سفارتی بات چیت اور مذاکرات کے راستے پر لوٹنے کے لیے ٹھوس کوشش کرنے کی اپیل کی۔

بھارت میں یوکرین کے سفیر نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے اپیل کی تھی کہ وہ روسی صدر سے بات کریں تاہم انہوں نے بھارت کے موقف پر اپنی ناراضگی کا بھی اظہار کیا تھا۔

وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ایک بیان کے مطابق پوٹن نے یوکرین کے بارے میں تازہ صورت حال سے مودی کو آگاہ کیا ہے جب کہ وزیرِ اعظم مودی نے اس بات پر زور دیا کہ فریقین باہمی اختلافات کو صرف بات چیت سے حل کر سکتے ہیں۔

مودی نے یوکرین میں بھارتی شہریوں بالخصوص طلبہ کے تحفظ کے سلسلے میں بھارت کی تشویش سے پوٹن کو آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اپنے شہریوں کی محفوظ واپسی کو اولین ترجیح دیتا ہے۔

اس سے قبل بھارت کے سیکرٹری خارجہ ہرش شرنگلا نے کہا تھا کہ نئی دہلی روس اور یوکرین کے درمیان بات چیت کے سلسلے میں راہ ہموار کرنے کے لیے ہمیشہ تیار ہے۔

'بھار ت امریکہ ایک پیج پر نہیں ہیں'

بھارت کے روس کے ساتھ تاریخی اور دوستانہ رشتے ہیں جب کہ امریکہ کے ساتھ اس کے اسٹریٹجک تعلقات ہیں جو گزشتہ ڈیڑھ دہائیوں میں تیزی سے آگے بڑھے ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ بھارت کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے اور اس نے یوکرین بحران پر نئی دہلی سے مکمل حمایت پر زور دیا لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دونوں ملک یوکرین تنازع پر ایک صفحے پر نہیں ہیں۔

رپورٹس کے مطابق ایک سینئر امریکی اہلکار نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یوکرین کے معاملے پر بھارت کے مؤقف سے متعلق ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سوالات کو ٹال دیا تھا۔تاہم درپردہ گفتگو میں امریکی اہلکاروں نے یوکرین تنازع میں بھارت کے مؤقف پر اپنی نا خوشی جتائی۔

مبصرین کے مطابق بھارت میں جہاں روسی حملے پر تشویش پائی جاتی ہے وہیں نئی دہلی روس کے ساتھ اپنے قریبی فوجی تعلقات کو خطرے میں ڈالنانہیں چاہتا۔ بھارت کی 60 سے 70 فی صد فوجی ضرورتیں روس سے پوری ہوتی ہیں۔

سینئر تجزیہ کار رویند رکمار نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ روس یوکرین تنازع پر بھار ت کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ کیوں کہ اب تک بھارت کی جانب سے جو اقدامات یا بیانات سامنے آئے ہیں ان میں یہی بات سامنے آئی ہے کہ بھارت فریقین پر بات چیت کے ذریعے مسئلے کا حل تلاش کرنے پر زور دے رہا ہے۔

ان کے بقول بھارت نے ہمیشہ اس طرح کے معاملات میں غیر جانبدارانہ مؤقف اختیار کیا ہے اور مذاکرات سے مسائل کو حل کرنے پر زور دیا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روس اور چین کی قربت پر بھی بھارت فکرمند ہے اور روس سے ایس ۔400 میزائل نظام کی خریداری کا مقصد بھی چین کی جانب سے حملے کو روکنا ہے۔

رویندر کمار کے مطابق یوکرین تنازع میں بھارت کومحتاط رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور کسی بھی موقع پر ایسا کوئی تاثر نہ جائے کہ وہ کسی ایک فریق کی حمایت کر رہا ہے۔

بھارت کی معیشت پر اثر

یوکرین پر روس کے حملے کے بعد خام تیل کی قیمتوں میں اضافے اور حصص بازاروں میں مندی پر بھی بھارت میں تشویش پائی جا رہی ہے۔

اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ اس سے بھارت کے ترقیاتی منصوبوں پر اثر پڑے گااور ملک میں مہنگائی میں بھی اضافہ ہوگا۔اس صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے جمعرات کی شب وزیرِ خزانہ نرملا سیتا رمن اور دیگر سینئر اہلکاروں کے ساتھ ایک اجلاس بھی کیا ہے۔

ماہرین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے بھارت میں افراط زر کی شرح حکومت کے اندازے سے بھی اوپر چلی جائے گی۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسٹاک مارکیٹ میں کمزوری کا اثر سرکاری کمپنیوں کی نجکاری کے حکومتی منصوبے پر بھی پڑے گا۔ حکومت کو امید تھی کہ وہ سرکاری کمپنی 'لائف انشورنس' کے پانچ فی صد حصص فروخت کرکے پانچ کھرب بھارتی روپے حاصل کرے گی۔

تجزیہ کار رویندر کمار بھی اس بات سے متفق ہیں روس اور یوکرین کی جنگ کے بھارت کی معیشت پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG