ابھی ایک مہینہ پہلے ہی کی بات تھی۔ روز صبح اٹھنا اور آفس کے لیے نکلنا کسی عذاب سے کم نہیں لگتا تھا۔
روز دل چاہتا تھا کہ آج چھٹی کر لی جائے۔ لیکن روز چاہتے ہوئے بھی ایسا ممکن نہیں ہوتا۔ کیونکہ صحافت ایک ایسا شعبہ ہے کہ اگر آپ ایک مرتبہ اس سے وابستہ ہو جائیں تو آپ اس سے الگ نہیں ہو سکتے، چاہیں آپ کتنا بھی دور بھاگیں۔ اور یہی وجہ تھی کہ عرصہ ہوا جو کبھی بلاوجہ چھٹی کی ہو۔ لیکن اب یہ سوچتی ہوں کہ آفس کب جاؤں گی۔
آج کئی ہفتے ہو گئے ہیں کہ میں اور وائس آف امریکہ کے میرے تقریباً تمام ساتھی گھر سے ہی کام کر رہے ہیں۔ اب روز صبح اٹھ کر دفتر تو نہیں جانا ہوتا لیکن اب دفتر گھر پر کھل گیا ہے۔ روز صبح کمپیوٹر کے سامنے آ کر بیٹھ جاتی ہوں۔ آٹھ گھنٹے گذر جاتے ہیں، لیکن آفس کا کام ختم نہیں ہوتا۔
اب سب کچھ خود کرنا پڑتا ہے۔ رپورٹنگ، کیمرے کا کام، ایڈیٹنگ، اور بھی بہت تکنیکی چیزیں۔
گھر سے کام کرتے ہوئے ان سب چیزوں پر وقت بھی زیادہ لگتا ہے۔ وہ کام جو ہم دفتر میں ایک گھنٹے میں کر لیا کرتے تھے۔ اب تین سے چار گھنٹے لگتے ہیں۔ اور ان سب مشکلات کی وجہ سے آفس کی بہت یاد آتی ہے۔ اور یہی سوچتی ہوں کہ یہ سب کب تک جاری رہے گا اور میں آفس کب جاؤں گی۔
ایسا کہتے ہیں کہ صحافت 24 گھنٹے کا کام ہوتا ہے۔ اس لیے میں اکثر آفس کا کام گھر لے آتی تھی۔ لیکن اب تو پورا گھر دفتر ہی دفتر ہے۔اب گھر والوں کو دس مرتبہ چپ کرانے کے بعد ریکارڈنگ ہوتی ہے۔ گھر سے وڈیوز بنائے جا رہے ہیں۔ انٹرویوز ہو رہے ہیں۔ جو کسی چیلنج سے کم نہیں۔
گھر سے کام کرتے ہوئے جب دو ہفتے گزرے تو معلوم ہوا کہ گھر کا انٹرنیٹ اتنا سست ہے کہ مشکل سے میں کام کر پاتی ہوں۔ تو فیصلہ کیا کہ انٹرنیٹ سروس تبدیل کی جائے۔
میں نے کمپنی سے رابطہ کیا۔ تمام چارجز ادا کر دئیے اور کہا کہ ایک ہفتے کے بعد انٹرنیٹ سروس بحال ہو جائے گی۔
جب خدا خدا کر کے وہ دن آیا تو کوئی نہیں آیا۔ میں نے فون کیا تو جواب ملا کہ آج ہی آرڈر جاری ہوئے ہیں کہ کرونا وائرس کی وجہ سے اب ہمارے کارکن کسی کے گھر میں داخل نہیں ہوں گے۔
اب آگے کیا؟ میں نے پوچھا تو جواب ملا اب 30 نومبر کو آپ کا کنکشن لگے گا۔ میں نے کہا کہ جلدی نہیں ہو سکتا تو معلوم ہوا کہ یہ تاریخ انہوں نے میرے لیے جلد کرا دی ہے۔
تو میں نے اسی لمحے سوچا کہ یا خدا میں آفس کب جاؤں گی کیونکہ اس سلو انٹرنیٹ کے ساتھ تو کام کرنا کسی عذاب سے کم نہیں۔ پہلے آفس میں ساتھیوں کے ڈسک پر جاتے تھے۔ باتیں کر لیا کرتے تھے۔ چل پھر لیا کرتے تھے۔
اب تو گھر میں سارا سارا دن کھاتے رہتے ہیں۔ اس لیے وزن بھی تین سے چار پاؤنڈ بڑ ھ گیا ہے۔ آفس میں کام میں مصروفیت کی وجہ سے کم از کم کھانا پینا تو کم ہوتا تھا۔ اس لیے سوچتی ہوں کہ آفس کب جاؤں گی۔