رسائی کے لنکس

رپورٹرز ڈائری: آسٹریلیا سے آخری پرواز کی مسافر


ایک طرف سڈنی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اضافی سیکیورٹی چیک کی وجہ سے فلائٹ مس ہوجانے کا ڈر اور دوسری طرف کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے گھر سے باہر نہ نکلنے کی تلقین نے ایک مسافر کو عجیب کشمکش میں ڈال دیا تھا۔

اس کا احساس اس وقت ہوا جب میں آسٹریلیا سے واشنگٹن ڈی سی کا سفر کرنے کے لیے مارچ کے آخری دنوں میں وہاں سے نکلی۔

یہ آسٹریلیا کی قومی ائیرلائنز کنٹاس کی آخری انٹرنیشل فلائٹ تھی اس لیے میں کسی بھی طرح یہ فلائٹ کھونا نہیں چاہتی تھی۔

واشنگٹن پہنچانا ضروری تھا۔ کرونا وائرس کی وبا کے دوران انجانے ملک میں وقت گزارنا کسی اذیت سے کم نہیں۔ یہ خیال بھی آیا کہ اگر سڈنی میں مجھے کچھ ہوگیا تو میری والدہ کو اطلاع ہوتے ہوتے زمانہ نہ لگ جائے یا پھر شاید پتہ ہی نہ چلے۔ اس بیماری نے عجیب غیر یقینی کیفیت میں ڈال دیا ہے۔

میں نے جنگ زدہ علاقوں میں رپورٹنگ کی ہے لیکن کبھی گولی لگنے کا ڈر نہیں ہوا۔ کیونکہ دشمن کون ہو سکتا ہے، یہ معلوم تھا۔ لیکن کرونا وائرس کے بارے میں دنیا کے ماہرین کی لاعلمی نے باقی لوگوں کی طرح مجھے بھی لرزا دیا۔ اس کا احساس تین مختلف ائیرپورٹس سے گزرنے کے دوران ہوا۔ ایک خوف تھا کہ زندہ پہنچ بھی گئے تو کیا زندگی باقی ہوگی؟ موت کے ڈر سے زیادہ زندگی میں اتنی بے یقینی ہونے کا احساس تھا۔

مجھے جہاز کے سفر سے کبھی ڈر نہیں لگا۔ کبھی جہاز میں خوفناک ہلچل مچتی تو میں سوچ لیتی کہ اب اگر خدا یہی چاہتا ہے تو کیا ہو سکتا ہے۔ لیکن میرا یہ سفر عجیب و غریب تھا۔

ایئرپورٹ کی جانب بڑھنے والا ہر قدم الجھن اور خوف میں مبتلا کررہا تھا۔ ایئرپورٹ پر جب سب ایک ہی سمت میں بڑھ رہے ہیں تو دوری کیسے قائم رکھی جائے۔ اس عالم میں میری طرح اور بھی بہت سے لوگ اپنے گھروں کو پہنچے کے لیے بے تاب تھے۔

چونکہ یہ آخری انٹرنیشنل فلائٹ تھی اس لیے طیارہ مسافروں سے مکمل بھرا ہوا تھا۔ میں نے ماسک اور گلوز پہن رکھے تھے۔ لیکن چند ہی لوگ تھے جو ان تدابیر پر عمل کررہے تھے۔

میری ایک جانب ایک بزرگ خاتون تھیں تو دوسری جانب ایک بڑی عمر کا جوڑا بیٹھا ہوا تھا۔ ہم چار لوگ 14 گھنٹے کے ہم سفر تھے اور منزل تھی لاس اینجلس۔ مجھے جہاز میں لوگوں سے بات کرنا زیادہ پسند نہیں لیکن پسند کرنے یا نہ کرنے کا اختیار اب کس کے پاس تھا۔

بزرگ خاتون لاس انجلس سے چھٹی پر سڈنی آئی تھیں۔ ان کے دو بچے ہیں جو مختلف امریکی ریاستوں میں کام کرتے ہیں۔وہ کہنے لگیں، میں پندرہ سال سے اپنے گھر میں اکیلی ہوں۔ مجھے گھر میں بند ہونے کا کوئی خوف نہیں لیکن کبھی کبھار بچے آجاتے تھے، شاید کافی عرصے تک اب ممکن نہ ہوسکے۔
لاس انجلس کا ایئرپورٹ لوگوں سے بھرا تھا۔ دکانیں کھلی تھیں۔ کاروبار زندگی رواں دواں تھا۔ جیسے کرونا وائرس کی خبر ان تک ابھی پہنچی ہی نہ ہو۔ جب ریاست کو اس بیماری کی تباہ کاری کا احساس ہوا تو تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔

لاس انجلس سے واشنگٹن پہنچنے کے لیے مجھے مزید پانچ گھنٹے کا سفر طے کرنا تھا۔ جہاز تقریباً خالی تھا۔ گنتی کے چھ مسافر۔ لیکن مجھے ماسک پہن کر بھی کھانستے ہوئے دیکھ کر لوگ گھورتے رہے۔ شکر ہے کہ یہ موسمی کھانسی تھی۔
سڈنی کے قیام کے آخری دنوں نے مجھے آنے والی زندگی کے لیے کسی حد تک تیار کردیا تھا۔ آسٹریلیا میں پیر تک پانچ ہزار سات سو سے زیادہ کرونا وائرس کے کیسز کی تشخیص ہوچکی تھی۔ سب سے زیادہ کیسز سڈنی میں ہیں اس لیے گھر سے باہر نہ نکلنے کے حکومتی احکامات آچکے تھے۔
میں نے آخری ہفتے میں سڈنی میں ہوٹل کے کمرے سے باہر نکلنا چھوڑ دیا تھا۔ ویسے بھی سنسان سڑکیں، خالی بازار اور کہیں کہیں کوئی اجنبی دیکھ کر لگتا تھا جیسے آپ کسی ڈراؤنی فلم کے سیٹ پر ہوں۔

یہ سب کم نہ تھا کہ آخری رات دو بجے ہوٹل میں فائر الارم بھی بج اٹھا۔ پہلے سے خوف زدہ ہوٹل کے سب مہمان باہر نکلے۔ بیسویں منزل پر بھڑکنے والی آگ پر آدھے گھنٹے میں قابو پالیا گیا اور کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
اب میں واشنگٹن میں اپنے گھر میں بند ہوں اور ماضی کے برعکس اپنی ماں کی کوئی کال یا میسج نظرانداز نہیں کررہی۔

XS
SM
MD
LG