الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے سینیٹ انتخابات کے بعد حتمی نتائج کا اعلان کردیا گیا ہے جس کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن کے حمایت یافتہ امیدواروں نے 15 نشستیں حاصل کیں جس کے بعد ن لیگ کے سینیٹرز کی مجموعی تعداد 33 تک پہنچ گئی ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی نے 12 نئی نشستیں حاصل کی ہیں جبکہ پیپلزپارٹی کے ایوان میں پہلے سے 8 سینیٹرز ہیں۔ پیپلزپارٹی نے مجموعی طور پر 20 سیٹیوں کے ساتھ دوسری بڑی جماعت کی حثیت لے لی ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے 6 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور مجموعی طور ایوان میں 12 سینیٹرز کے ساتھ تیسری پوزیشن پر ہے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق سینیٹ میں 15 نشستیں آزادا میدواروں کے پاس ہیں، ایم کیوایم کی 5، جمعیت علمائےاسلام )ف( کی سینیٹ میں 4 نشستیں، نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (میپ) کی بھی سینیٹ میں 5،5 نشتیں ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کی نشست حاصل کرنے کیلئے کسی بھی جماعت کوکم از کم 53 سینیٹرز کی حمایت درکار ہے۔
ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کے 104 سینیٹرز میں چاروں صوبوں سے کُل 23 ارکان ہیں۔ جن میں سے 14 عمومی ارکان، 4 خواتین، 4 ٹیکنوکریٹ اور 1 اقلیتی رکن ہے۔ ایوان بالا میں فاٹا سے 8 عمومی ارکان سینیٹ کا حصہ ہیں۔ اسلام آباد سے کُل 4 ارکان ہیں جن میں سے 2 عمومی جبکہ ایک خاتون اور ایک ہی ٹیکنوکریٹ رکن ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کا دعوٰی ہے کہ اس کو پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، جمعت علماء اسلام (ف) اور نیشنل پارٹی کے سینیٹرز کے ساتھ 47 ارکان کی حمایت حاصل ہے اور متحدہ قومی موومنٹ یا آزاد ارکان کی حمایت سے باآسانی چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ بنانے کی پوزیشن میں ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی نے چیئرمین سینیٹ کی نشست پر قبل از وقت ہی کامیابی کا دعوی کردیا ہے۔ ڈاکٹر قیوم سرمرو اور فیصل کریم کنڈی پر مشتمل پیپلزپارٹی کے وفد نے بلوچستان میں وزیراعلیٰ اور آزاد ارکان سے ملاقات کی ہے جس میں ان کی حمایت حاصل کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے قائد پاکستان مسلم لیگ (ن) نوازشریف کی جانب سے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کیلئے مشترکہ امیدوار لانے کی پیشکش مسترد کردی ہے۔
ڈاکٹر قیوم سومرو نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ صرف آزاد سینیٹرز نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل کریں گے۔ جمعیت علماء اسلام ( ف)، عوامی نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی اور فاٹا کے آزاد ارکان سے بھی رابطے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کی ہدایت پر کوئٹہ آکر سینیٹرز سے رابطے کیے ہیں۔ ہر طرف سے مثبت جواب مل رہا ہے۔ قوم کو ایک بار پھر سرپرائیز دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ الزام لگانے والے لگاتے رہیں۔ وہ سیاستدان ہیں۔ سیاسی طریقے سے حالات کو اپنے حق میں کرتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے فیصل کریم کنڈی نے بتایا کہ انکی جماعت نے خیبرپختونخواہ سے سینیٹ کی ایک نشست پر پی ٹی آئی کی کامیابی کو عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ انکی جماعت کے امیدوار فیصل سخی بٹ کے 3 ووٹ 1 لکھنے کے بجائے 01 لکھنے کی بنا پر مسترد کیے گئے جس کی وجہ سے ان کی جیت ہار میں بدل گئی۔ فیصل کریم کنڈی نے واضح کیا کہ ہم الیکشن کمیشن کے فیصلے پر ہائیکورٹ سے رجوع کررہے ہیں۔ تین ووٹ درست قرار پاگئے تو تحریک انصاف سینیٹ کی ا یک اورسیٹ سے محروم ہو جائے گی۔
چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات میں بلوچستان سے 6 اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) سے 8 آزاد سینیٹرز سیاسی ماحول کو ٹھیس پہنچا سکتے ہیں۔ دونوں عہدوں کیلئے تحریک انصاف کا کردار بھی اہم ہوگا۔
ن لیگ کی جانب سے سینیٹر پرویز رشید، مشاہد اللہ خان اور راجہ ظفر الحق کے ناموں کو چیئرمین سینیٹ کیلئے موزوں قرار دیا جارہا ہے جبکہ پیپلزپارٹی کی جانب سے رضا ربانی، شیریں رحمان اور سلیم مانڈی والا اہم امیدوار ہیں۔ ان کے علاوہ فاورق ایچ نائیک اور رحمان ملک بھی آصف علی زرداری کے منظور نظر امیدواروں کی فہرست میں شامل ہیں۔
سینیٹ انتخابات کے دوران ہارس ٹریڈنگ کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ ایک ایک ووٹ کے لیے کروڑوں روپے کی پیشکش کی گئی ہے۔