امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے تحت افغانستان کی جیلوں سے طالبان قیدیوں کی رہائی کا عمل جاری ہے۔ رہائی پانے والے بعض قیدیوں نے دوبارہ محاذ جنگ میں جانے کا عندیہ دیا ہے جس کے بعد افغانستان میں یہ بحث زور پکڑ گئی ہے کہ ان طالبان جنگجوؤں کا مستقبل کیا ہو گا۔
رواں سال 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طے پانے والے امن معاہدے کے تحت افغان حکومت نے لگ بھگ پانچ ہزار طالبان قیدی جب کہ طالبان نے ایک ہزار سے زائد افغان حکومت کے قیدیوں کو رہا کرنا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ اب تک افغان حکومت 3000 طالبان قیدیوں کو رہا کر چکی ہے جب کہ طالبان نے افغان حکومت کے 750 قیدیوں کو رہا کیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ رہائی پانے والوں میں خود کش حملہ آور، خود کش جیکٹس تیار کرنے کے ماہر، اغوا کاروں سمیت کئی غیر ملکی قیدی بھی شامل ہیں۔
رہائی سے قبل ان قیدیوں سے ایک تحریری وعدہ لیا جاتا ہے کہ وہ دوبارہ ہتھیار نہیں اُٹھائیں گے۔ لیکن ماہرین کے نزدیک ایسے تحریری وعدوں کی عملاً کوئی وقعت نہیں۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اُنہیں خدشہ ہے کہ رہائی پانے والے جنگجو دوبارہ عسکریت پسندی کی طرف مائل ہو کر امن و امان کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔
افغانستان کی بگرام جیل سے رہائی پانے والے ایک طالبان قیدی 28 سالہ محمد داؤد نے خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ امریکی افواج نے اپنی کارروائیوں میں کئی افغان شہریوں کو ہلاک کیا۔ لہذٰا جب تک وہ یہاں سے نکل نہیں جاتے اس وقت تک جہاد جاری رہے گا۔
داؤد نے مزید بتایا کہ وہ اپنے ملک میں اب غیر ملکی فوج کا وجود مزید برداشت نہیں کر سکتے۔
رہائی کے بعد داؤد کو جیل انتظامیہ کی جانب سے 65 امریکی ڈالر دیے گئے تاکہ وہ اپنے گاؤں جا سکیں۔
پاکستان میں مقیم ایک طالبان رہنما نے خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ رہائی پانے والے طالبان قیدیوں کو اگلے مورچوں پر لڑنے کے لیے تعینات کیا جائے گا۔ لہذٰا کسی کو اس بارے میں کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے۔
طالبان رہنما نے کہا کہ "ہمارا جہاد اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ہم کابل حکومت کے ساتھ کسی حتمی معاہدے پر متفق نہیں ہو جاتے۔"
طالبان کا یہ موقف رہا ہے کہ امن معاہدے کے تحت وہ امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کے خلاف حملے نہ کرنے کے پابند ہیں۔ لیکن وہ افغان سیکیورٹی فورسز کے خلاف کارروائیاں جاری رکھیں گے۔
لیکن امریکہ کا یہ اصرار رہا ہے کہ طالبان کو یہ حملے روک کر افغان حکومت سے مذاکرات کرنے چاہئیں تاکہ افغانستان کے سیاسی مستقبل کا تعین ہو سکے۔
سینئر پاکستانی تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ کسی ایک فرد کے بیان پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ رہائی پانے والے سارے طالبان جنگجو میدان جنگ میں جانا چاہتے ہیں۔
اُن کے بقول کچھ لوگ زیادہ نظریاتی ہوتے ہیں اور اسی بنیاد پر وہ بیان دیتے ہیں۔ لیکن یہ فیصلہ طالبان قیادت نے ہی کرنا ہے کہ ان جنگجوؤں کو میدان جنگ میں اُتارنا ہے یا نہیں۔
البتہ حسن عسکری سمجھتے ہیں کہ اس وقت طالبان قیادت، امریکہ اور کابل حکومت افغان تنازع کے سیاسی حل میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں۔
عید کے دوران طالبان کی جانب سے تین روزہ جنگ بندی کے اعلان کے بعد افغان حکومت نے جذبہ خیر سگالی کے تحت طالبان قیدیوں کی رہائی کا عمل تیز کیا تھا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر تمام 5000 طالبان قیدی ہتھیار اُٹھا لیں تو افغانستان میں طالبان جنگجوؤں کی تعداد میں 10 فی صد اضافہ ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ ایک اندازے کے مطابق اس وقت 50 ہزار سے ایک لاکھ طالبان جنگجو سرگرم ہیں۔
افغان حکام کا یہ گلہ رہا ہے کہ امریکی حکام نے طالبان کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاملے پر اُن سے مشورہ نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ معاہدے کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے طالبان قیدیوں کو رہا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
بعدازاں امریکہ کی مداخلت کے بعد افغان حکومت طالبان قیدیوں کو رہا کرنے پر رضا مند ہوئی تھی۔
طالبان امریکہ کے ساتھ طے پانے والے امن معاہدے کو اپنی فتح کے طور پر دیکھتے ہیں۔
طالبان رہنما سراج الدین حقانی نے گزشتہ ہفتے ایک بیان میں کہا تھا کہ سیاست اور مذاکرات کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے جہادی نظریے کو ترک کر دیں گے۔