رسائی کے لنکس

ٹائی ٹینک کی باقیات کی سیر کے لیے جانے والی لاپتا آب دوز کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟


امریکی اور کینیڈا کے حکام کشتیوں اور طیاروں کے ذریعہ سمندر میں لاپتا ہونے والی آب دوز کو تلاش کررہے ہیں۔

پیر کو لاپتا ہونے والی آب دوز کینیڈا کے جنوب مشرق میں ڈوبنے والے تاریخی بحری جہاز ٹائی ٹینک کی باقیات دیکھنے کے لیے بحرِ اوقیانوس کی گہرائی میں گئی تھی۔ معروف تاریخی جہاز 1912 میں اسی مقام پر سمندر میں غرق ہو گیا تھا جس کے نتیجے میں عملے سمیت جہاز پر سوار 2200 میں سے 1500 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

امریکی کوسٹ گارڈ کے مطابق سطح سمندر اور زیرِ آب چلنے والی اس بحری آب دوز میں ایک پائلٹ اور چار مسافر سوار ہیں۔ حکام کے مطابق یہ واضح نہیں کہ یہ ابھی تک سمندر میں موجود ہے یا سطح پر آنے کے بعد اس سے رابطہ منقطع ہوا تھا۔

ٹائی ٹینک کی باقیات کی سیر کے لیے زیرِ آب جانے والے اس مشن کا اہتمام ’اوشیئن گیٹ ایکسپیڈیشن‘ نے کیا تھا۔ یہ کمپنی اس سے پہلے بھی سمندر کی تہہ میں ٹائی ٹینک کی باقیات کی سیر کے لیے دو مرتبہ ایسے ہی سفر کا اہتمام کرچکی ہے۔ سمندر میں غرق ٹائی ٹینک کی باقیات دکھانے کے لیے آبدوز سطح سمندر سے تقریباً تین اعشاریہ آٹھ کلومیٹر گہرائی میں جاتی ہے۔

کوسٹ گارڈ حکام کے مطابق سمندر کی گہرائی میں آب دوز کا سفر اتوار کو شروع ہوا تھا جس کے ایک گھنٹے 45 منٹ بعد اس سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا ۔ پھر پیر سے اس کی تلاش کا سلسلہ شروع کیا گیا۔

حکام کا کہنا ہے کہ آبدوز میں 96 گھنٹے کے لیے کافی آکسیجن موجود ہے اور یہ اتنے عرصے کے لیے پانی کے اندر رہ سکتی ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ جب آبدوز سے رابطہ منقطع ہوا تو وہ سمندر میں تھی یا سطح پر آچکی تھی۔

پاکستانی بزنس مین اور اُن کا بیٹا بھی لاپتا افراد میں شامل

کوسٹ گارڈ حکام کا کہنا ہے اس آبدوز میں ایک پائلٹ اور چار ’مشن اسپیشلسٹ‘ سوار تھے۔ مشن اسپیشلسٹ ان افراد کو کہا جاتا ہے جو زیرِ سمندر سفر کے لیے اوشیئن گیٹس کمپنی کو رقم ادا کرتے ہیں۔ اس رقم کے عوض انہیں پانچ افراد کی گنجائش والی اس آبدوز یا سبمرسیبل کے اندر سمندر کی گہرائی کا سفر کرایا جاتا ہے۔

سال 2021 میں ابتدائی طور پر اس کا سفر کرنے والے گروپ نے فی کس ایک لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ ڈالر رقم ادا کی تھی۔ تاہم 2023 میں سفر کے لیے ڈھائی لاکھ ڈالر رقم وصول کی گئی ہے۔

اس آبدوز میں ایک برطانوی بزنس مین ہیمش ہارڈنگ سوار ہیں جو دبئی میں مقیم ہیں۔ ان کی کمپنی ’ایکشن ایوی ایشن‘ کے مطابق وہ سمندر کی گہرائی میں طویل ترین سفر کے تین عالمی ریکارڈ بنا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ 2022 میں خلائی سفر بھی کرچکے ہیں۔

اس آبدوز میں دو پاکستانی شہزادہ داؤد اور ان کے بیٹے سلیمان سوار ہیں۔ ان کا تعلق پاکستان کے نمایاں کاروباری گروپ 'داؤد ہرکولیس کارپوریشن' سے ہے۔

شہزاد داؤد کے خاندان کا زراعت، صنعت اور صحت کے شعبے میں بڑی سرمایہ کاری کے کاروبار سے تعلق ہے۔ شہزادہ داؤد ایک تحقیقی ادارے کے بورڈ آف ٹرسٹی میں بھی شامل ہیں۔

آبدوز کیوں زیرِ سمندر جاتی ہے؟

اوشیئن گیٹ کی فراہم کردہ دستاویزات کے مطابق ٹائٹن کہلانے والی یہ آبدوز سمندر کی گہرائی میں تقریباً ڈھائی کلو میٹر تک بحفاظت سفر کرسکتی ہے۔اسے سمندری سفر پر روانہ کرنے سے قبل 50 مختلف آزمائشوں سے گزارا جاتا ہے۔

کمپنی کے مطابق 2022 میں ایک سفر کے دوران پہلا غوطہ کھانے پر آبدوز کی بیٹری میں ایک خرابی پیدا ہوئی تھی اور اسے کھینچ کر پانی سے نکالا گیا تھا۔

اوشیئن گیٹ آبدوز سمندر کی تہ میں موجود ٹائی ٹینک جہاز کی باقیات میں پیدا ہونے والے بگاڑ اور سمندر کے اندر ماحول میں آنے والی تبدیلیوں کے جائزے کے لیے گہرائی کا سفر کراتی ہے۔

سمندر میں ٹائی ٹینک کی باقیات میں شامل لوہے کو زیرِ آب موجود بیکٹریا نگل رہا ہے جو روانہ سینکڑوں پاؤنڈ لوہا کھا جاتا ہے۔ تیزی سے گھلتے ہوئے اس ڈھانچے کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے آنے والی چند دہائیوں میں زیرِ آب موجود ٹائی ٹینک کی باقیات مکمل طور پر تحلیل ہوجائیں گی۔

اوشیئن گیٹ کے مطابق ٹائٹن کی پر لگے طاقت ور کیمروں اور دیگر آلات کے ذریعے جہاز کی باقیات کے گلنے کے عمل کی نگرانی اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کے نتیجے میں سائنس دان دنیا بھر میں سمندر کی تہہ میں موجود بحری جہازوں کی باقیات کے مستقبل کے بارے میں پیش گوئی کرسکتے ہیں۔ ان باقیات میں دوسری عالمی جنگ کے دوران ڈوبنے والے متعدد جہاز بھی شامل ہیں۔

کمپنی کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ سمندری حیات کی مختلف انواع پر نظر رکھنا بھی اس کی مشن کے مقاصد میں شامل ہے کیوں کہ سینکڑوں ایسی انواع ہیں جو صرف ڈوبے ہوئے جہاز کی باقیات میں دیکھی گئی ہیں۔

اس تحریر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG