نئی دہلی کے سیاست دانوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے بھارت کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں تشدد کی تازہ لہر کے دوران 13 ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پیر کو سیکورٹی فورسز کو منی پور میں میانمار سرحد سے متصل تنگنوپال ضلع کے ایک گاؤں لیتھاؤ میں فائرنگ کے تبادلے کی اطلاع ملی تھی۔
سیکیورٹی فورسز وہاں پہنچیں تو انہیں وہاں 13 لاشیں ملیں۔ گزشتہ سات ماہ کے دوران ایک دن میں یہ سب سے زیادہ ہلاکتیں ہیں۔
یاد رہے کہ منی پور میں رواں سال مئی میں میدانی علاقوں میں آباد ہندو آبادی ’میتی‘ اور پہاڑی علاقوں میں آباد مسیحی آبادی ’کوکی‘ کے درمیان نسلی فساد پھوٹ پڑا تھا۔ اس وقت سے لے کر اب تک وہاں کم از کم 193 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ فساد کے نتیجے میں تقریباً 60 ہزار افراد بے گھر ہوئے ہیں۔
اپوزیشن جماعت کانگریس نے تشدد کی تازہ لہر پر حکومت پر تنقید کی ہے۔
کانگریس کے صدر ملک ارجن کھڑگے نے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ منی پور میں سات ماہ سے تشدد جاری ہے۔ اس کے نتیجے میں جو 60 ہزار سے زائد افراد بے گھر ہوئے ہیں، وہ کیمپوں میں غیر انسانی حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔
کانگریس کے جنرل سیکریٹری جے رام رمیش نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ منی پور کی صورتِ حال معمول سے بہت دور ہے اور وزیرِ اعظم اپنی ناقابلِ فہم خاموشی کے ساتھ ریاست کے رہنماؤں سے ملاقات اور منی پور کے دورے سے انکار کر رہے ہیں۔
ان کے مطابق وزیرِ داخلہ امت شاہ کا دعویٰ ہے کہ ریاست میں امن لوٹ آیا ہے لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔
'منی پور میں حالات اب بھی خراب ہیں'
سینئر تجزیہ کار اور انسانی حقوق کے کارکن ایڈووکیٹ رویندر کمار کا کہنا ہے کہ وزیر داخلہ امت شاہ نے دعویٰ کیا تھا کہ حکومت نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو تباہ کر دیا ہے۔ لیکن حالیہ ہلاکتوں سے پتا چلتا ہے کہ حالات اب بھی خراب ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ مرکزی حکومت نے اس تنازعے سے چشم پوشی کر رکھی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ اس قضیے کو حل کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ منی پور میں مئی سے ہی نسلی فساد جاری ہے اور حکومت خاموش ہے۔ ان کے بقول وہ دنیا کے تمام ایشوز پر جیسے کہ یوکرین اور حماس کے بارے میں اپنا ردِعمل ظاہر کرتی ہے۔ لیکن اپنے ہی ملک کی ایک ریاست میں لگنے والی آگ پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔
واضح رہے کہ حکومت نے بقول اس کے حالات کے معمول کی جانب لوٹنے کے پیشِ نظر ایک روز قبل یعنی تین دسمبر کو سرحدی اضلاع کے دو کلومیٹر کے دائرے کو چھوڑ کر پوری ریاست میں موبائل خدمات بحال کی تھیں اور اگلے روز ہی مذکورہ واقعہ پیش آ گیا۔
رویندر کمار کہتے ہیں کہ ریاست میں تشدد کا سلسلہ بند نہیں ہوا ہے۔ لیکن انٹرنیٹ خدمات کی معطلی کی وجہ سے ان کا علم نہیں ہو پا رہا۔ جوں ہی انٹرنیٹ بحال ہوا مذکورہ واردات کا علم ہو گیا۔ اگر انٹرنیٹ بحال نہیں ہوا ہوتا تو اس کے بارے میں بھی کسی کو معلوم نہیں ہو پاتا۔
پولیس کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس واردات کے سلسلے میں ایک کیس درج کر لیا گیا ہے اور تحقیقات کی جا رہی ہے۔
نئی دہلی کے اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ کی رپورٹ کے مطابق سیکیورٹی فورسز کے ایک عہدے دار نے بتایا کہ مرنے والوں کے جسم پر گولیوں کے نشانات ہیں۔
ابتدائی تحقیقات کے مطابق ان لوگوں کا تعلق مذکورہ گاؤں سے نہیں ہے۔ وہ دوسرے علاقے سے صبح کے وقت وہاں پہنچے تھے۔ اس گاؤں میں صرف نو گھر ہیں اور کل آبادی 120 افراد پر مشتمل ہے۔
رپورٹس کے مطابق وہ کوکی برادری کا گاؤں ہے۔ گاؤں کی حفاظت پر مامور ’ویلیج ڈیفنس والنٹئر‘ (وی ڈی ایف) کے رضاکاروں اور بندوق برداروں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا تھا۔
سیکیورٹی فورسز کو خدشہ ہے کہ چوں کہ لتھاؤ گاؤں کے قریبی پہاڑی علاقے کا راستہ میانمار سے آنے والے اور مقامی باشندوں کا مشترکہ راستہ ہے اس لیے ممکن ہے کہ بندوق بردار میانمار سے آنے والے عسکریت پسند ہوں۔
مقامی باشندوں کے مطابق اتوار کی رات گاؤں میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیاں دیکھی گئی تھیں۔ پولیس نے تین لوگوں کے شناختی کارڈ دیکھے جو کہ منی پور کے تھے۔ ممکن ہے کہ باقی میانمار کی سرحد عبور کر کے آئے ہوں۔ کچھ لاشیں گاؤں میں اور کچھ گاؤں کے باہر پائی گئیں۔ کچھ لوگ قریبی جنگلوں میں فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
گاؤں کے مکھیہ (سربراہ) کا کہنا ہے کہ لوگوں نے 20 عسکریت پسند دیکھے تھے جن میں سے کچھ مسلح تھے۔ وہ بعض گھروں میں گھسنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس کی اطلاع وی ڈی ایف کے رضاکاروں کو دی گئی جس کے بعد فریقین کے درمیان ایک گھنٹے تک گولیوں کا تبادلہ ہوتا رہا۔
دریں اثنا وزارت داخلہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ میتی برادری کے ایک انڈر گراؤنڈ گروپ ’نیشنل ریوولوشنری فرنٹ منی پور‘ (این آر ایف ایم) اور ایک ممنوعہ میتی گروپ ’یونائیٹڈ نیشنل لبریشن فرنٹ‘ (یو این ایل ایف) نے 29 نومبر کو مرکزی حکومت اور منی پور کی حکومت کے ساتھ ایک امن معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔
وزارت کے بیان کے مطابق معاہدے کے ساتھ ہی ان تنظیموں کے متعدد کارکنوں نے تشدد کا راستہ ترک کرنے کی جانب قدم بڑھایا ہے۔ اس سے منی پور میں معمول کے حالات کو واپس لانے کی حکومت کی کوششوں کو تقویت حاصل ہو گی۔
فورم