رسائی کے لنکس

گولان راکٹ حملہ؛ اسرائیل میں بسنے والے 'دروز' کون ہیں؟


  • اسرائیل گولان کی پہاڑیوں کو دفاعی اور اسٹریٹجک نکتۂ نظر سے بہت اہم قرار دیتا ہے.
  • اسرائیل کے زیرِ انتظام گولان کے علاقے کی 45 ہزار سے 50 ہزار آبادی میں نصف یعنی 25 ہزار کا تعلق اقلیتی کمیونٹی دروز سے ہے۔
  • تاہم شام میں 2011 کے بعد شروع ہونے والی خانہ جنگی کے بعد گولان میں اسرائیل کے زیرِ انتظام علاقوں میں مقیم دروزوں میں اسرائیل کی شہریت اختیار کرنے کا رجحان بڑا ہے.
  • دروز اسرائیل کی پارلیمنٹ اور ریاستی اداروں میں خاطر خواہ نمائندگی رکھتے ہیں۔

ویب ڈیسک -- گولان پہاڑیوں پر ہلاکت خیز راکٹ حملے کے بعد اسرائیل اور لبنانی عسکریت پسند تنظیم 'حزب اللہ' کے درمیان کشیدگی میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے جب کہ اس حملے کے بعد متاثرہ علاقے میں بسنے والی دروز کمیونٹی ایک بار پھر توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔

ہفتے کو گولان کی پہاڑیوں میں اقلیتی مذہبی کمیونٹی دروز کی اکثریتی آبادی کے علاقے مجدل شمس کے ایک فٹ بال گراؤنڈ پر راکٹ حملہ ہوا تھا۔ اس حملے میں 12 بچے ہلاک ہوئے تھے اور ان سبھی کا تعلق دروز کمیونٹی سے تھا۔

اسرائیل نے لبنان کی ایران نواز عسکری تنظیم حزب اللہ کو اس حملے کا ذمے دار قرار دیا ہے۔ حزب اللہ اس حملے سے لاتعلقی کا اظہار کر چکی ہے۔

پیر کو اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے مجدل شمس میں راکٹ حملے کا نشانہ بننے والے مقام کا دورہ بھی کیا ہے اور اس حملے کا شدید جواب دینے کا اعلان کیا ہے۔

گولان پہاڑیوں میں ہونے والے اس راکٹ حملے کے بعد غزہ میں جاری جنگ کا دائرہ پھیلنے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔

اس حالیہ تنازع میں گولان پہاڑی اور یہان بسنے والی دروز کمیونٹی سے متعلق اہم تفصیلات یہاں فراہم کی جا رہی ہیں۔

گولان پہاڑیاں اہم کیوں؟

اسرائیل گولان کی پہاڑیوں کو دفاعی اور اسٹریٹجک نکتۂ نظر سے بہت اہم قرار دیتا ہے۔ تاہم 1967 تک یہ علاقہ شام میں شامل تھا۔ اسرائیل نے عرب ممالک سے 1967 میں ہونےو الی چھ روزہ جنگ کے بعد گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ بعدازاں 1981 میں اسرائیل نے یک طرفہ طور پر اس علاقے کا الحاق کر دیا جسے تاحال عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔

شام گولان کی پہاڑیوں کی واپسی کا مطالبہ کرتا رہا ہے اور ماضی میں اس نے یہ علاقہ حاصل واپس حاصل کرنے کی کئی کوششیں بھی کی ہیں۔ سن 1973 کی مشرقِ وسطیٰ کی جنگ میں شام نے یہ علاقہ واپس حاصل کیا جس میں اسے کامیابی نہیں ہوئی تھی۔

سن 2000 میں شام اور اسرائیل کے درمیان گولان پہاڑیوں سے متعلق اعلیٰ ترین سطح پر مذاکرات کا آغاز بھی ہوا تھا لیکن یہ گفت و شنید بھی مزید آگے نہیں بڑھ سکی۔

اسرائیل کا موقف رہا ہے کہ شام میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے بعد گولان کا علاقہ ایک ایسے بفرزون کے طور پر اس کے پاس رہنا ضروری ہے جس کے ذریعے وہ اپنے ہمسائے میں پھیلنے والے عدم استحکام کو اپنی سرحدوں تک پہنچنے سے روک سکتا ہے۔

گولان کا ایک حصہ شام کے کنٹرول میں ہے۔ تاہم اسرائیل کو یہ خدشہ بھی ہے کہ گولان پر شام کا مکمل کنٹرول ہونے سے شام اپنے اتحادی ایران کے ساتھ مل کر اس علاقے سے اسرائیل پر حملے کر سکتا ہے۔

اسرائیل کی دو فی صد آبادی کا تعلق دروز کمیونٹی سے ہے۔
اسرائیل کی دو فی صد آبادی کا تعلق دروز کمیونٹی سے ہے۔

دروز کون ہیں؟

اسرائیل کے زیرِ انتظام گولان کے علاقے کی آبادی 45 سے 50 ہزار ہے۔ اس میں نصف یعنی 25 ہزار کا تعلق اقلیتی کمیونٹی دروز سے ہے۔ ہفتے کو گولان کے جس علاقے مجدل شمس میں راکٹ حملہ ہوا وہ بھی دروز کمیونٹی کا اکثریتی علاقہ ہے۔

دروز بنیادی طور پر گیارہویں صدی میں مسلمانوں کے باطنی فرقے یا اسماعیلی کمیونٹی سے الگ ہوئے تھے۔ فاطمی خلافت کے دور میں اسماعیلیوں سے الگ ہو کر انہوں نے فاطمی خلیفہ الحاکم کو مہدی اور خدا کا مظہر قرار دیا تھا البتہ یہ خود کو مؤحدین بھی کہلاتے تھے۔

دنیا میں اقلیتی کمیونٹیز کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’مائنورٹی رائٹس گروپ‘ کے مطابق دروز ایک مذہبی کمیونٹی ہے جو نسلاً عرب ہیں اور عربی زبان بولتے ہیں۔

ان کا مذہب توحید پرستی پر مبنی ہے اور ان کے عقائد میں اسلام، یہودیت اور مسیحیت کے تصورات بھی شامل ہیں۔ دروز مذہب پر یونانی فلسفے اور ہندو مت کے اثرات بھی ہیں۔ گیارہویں صدی عیسوی کے بعد سے دروز اپنے مذہب کا پرچار نہیں کرتے۔

دروزیوں کو مصر میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کے بعد انہوں نے وادیٔ التیم اور شف کو اپنا ٹھکانہ بنایا۔ آج یہ پہاڑی علاقے تین ملکوں میں تقسیم ہو گئے ہیں۔ دروزی زیادہ ترکیہ، شام اور لبنان میں آباد ہیں۔

دروز کمیونٹی اسرائیل میں بھی بستی ہے۔ اسرائیل کے مرکزی ادارۂ شماریات کے مطابق اسرائیل میں دروز کمیونٹی کی مجموعی آبادی ڈیڑھ لاکھ سے زائد ہے۔ اس کی کچھ آبادی اردن میں بھی ہے۔ ان تمام ممالک میں دروز اپنے مذہبی نظریات کی وجہ سے ان کی حکومتوں کے ساتھ وفاداری کا اظہار کرتے ہیں۔

ہفتے کو راکٹ حملے میں ہلاک ہونے والے 12 بچوں اور نوجوانوں میں سے کسی کا خاندان اسرائیلی شہری نہیں تھا۔
ہفتے کو راکٹ حملے میں ہلاک ہونے والے 12 بچوں اور نوجوانوں میں سے کسی کا خاندان اسرائیلی شہری نہیں تھا۔

دروزو کسی بھی ایسی زمین اور اس کی حکومت کے ساتھ گہری وابستگی رکھتے ہیں جس نے انہیں پناہ دی ہو۔

یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نے 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں شام سے متصل گولان پہاڑیوں کے جن علاقوں پر قبضہ کیا تھا وہاں بسنے والے اکثر دروز اسرائیلی شہریت کو مسترد کرتے آئے ہیں۔

ہفتے کو مجدل شمس کے فٹ بال گراؤنڈ میں ہلاک ہونے والے بچوں میں سے کسی کے بھی خاندان نے اسرائیلی شہریت حاصل نہیں کی تھی۔

تاہم شام میں 2011 کے بعد شروع ہونے والی خانہ جنگی کے بعد گولان اسرائیل کے زیرِ انتظام علاقوں میں مقیم دروزوں میں اسرائیل کی شہریت اختیار کرنے کا رجحان بڑا ہے یہاں مقیم 25 فی صد دروز اسرائیل کی شہریت حاصل کر چکے ہیں۔

گولان سے باہر باقی ماندہ ایک لاکھ 30 ہزار سے زائد دروزوں کی زیادہ تر آبادی کرمل اور الجیل کے علاقوں میں ہیں۔

اسرائیل کی مجموعی آبادی میں تقریباً دو فی صد دروز ہیں۔ تاہم گولان سے باہر بسنے والے دروز اسرائیل کی پارلیمنٹ اور ریاستی اداروں میں خاطر خواہ نمائندگی رکھتے ہیں۔

اسرائیلی پارلیمنٹ کے ڈھائی فی صد نمائندے دروز ہیں۔ اسی طرح دروز آبادی کا تقریباً 45 فی صد اسرائیلی فوج میں ہے۔ 2021 میں ’جوئش پیپل پالیسی انسٹی ٹیوٹ‘ کے ایک سروے کے مطابق 61 فی صد دروز خود کو ’حقیقی اسرائیلی‘ سمجھتے ہیں۔

اس تحریر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG