رسائی کے لنکس

صدر آصف زرداری کا دورۂ چین؛ پاکستان میں سیکیورٹی سے متعلق چین کے خدشات دُور ہو سکیں گے؟


  • صدر زرداری بیجنگ میں صدر شی جن پنگ، وزیر اعظم لی چیانگ اور دیگر اعلی حکومتی رہنماؤں سمیت چینی قیادت سے ملاقاتیں کریں گے۔
  • گزشتہ سال صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد صدر آصف زرداری کا یہ پہلا دورۂ چین ہے۔
  • چین اور پاکستان کے درمیان سیکیورٹی امور پر معاملات طے ہونے جارہے ہیں: تجزیہ کار ڈاکٹر فضل الرحمٰن
  • حالیہ عرصے میں خاص طور پر بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے اتحاد کے بعد پاکستان اور چین کے سیکیورٹی کے حوالے سے تحفظات بڑھے ہیں: تجزیہ کار محمد علی بیگ

اسلام آباد -- پاکستان کے صدر آصف علی زرداری اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ کی دعوت پر پانچ روزہ دورے پر چین پہنچ گئے ہیں۔ پاکستان اور چین کے درمیان سیکیورٹی معاملات کے تناظر میں اس دورے کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

صدر زرداری بیجنگ میں صدر شی جن پنگ، وزیر اعظم لی چیانگ اور دیگر اعلی حکومتی رہنماؤں سمیت چینی قیادت سے ملاقاتیں کریں گے۔

گزشتہ سال صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد صدر آصف زرداری کا یہ پہلا دورۂ چین ہے جو گزشتہ سال اکتوبر میں چینی وزیرِ اعظم کے دورۂ اسلام آباد کے بعد اعلی رابطوں کا تسلسل قرار دیا جارہا ہے۔

ایوان صدر کے مطابق نائب وزیر اعظم اور وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار اور وزیرِِ داخلہ محسن نقوی بھی صدر زرداری کے ہمراہ ہیں۔

پاکستان کے دفتر ِ خارجہ کے بیان کے مطابق صدر زرداری کے دورے میں ہونے والی بات چیت میں اقتصادی اور تجارتی تعاون پر خصوصی توجہ کے ساتھ انسدادِ دہشت گردی اور سیکیورٹی تعاون، چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) اور مستقبل کے رابطے کے اقدامات کے متعلق پاک چین تعلقات کے مکمل دائرہ کار کا جائزہ لیا جائے گا۔

مبصرین خطے کے بدلتے حالت میں صدر زرداری کے دورۂ چین کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ آصف زرداری کا دورۂ بیجنگ، چین کے سیکیورٹی تحفظات کو دور کرنے اور اعتماد سازی کے ماحول میں مستقبل کی حکمتِ عملی وضع کرنے میں مددگار ہوگا۔

'چین اور پاکستان کے درمیان سیکیورٹی معاملات طے ہونے جا رہے ہیں'

پاکستان چین کونسل کے صدر ڈاکٹر فضل الرحمن کہتے ہیں کہ صدر زرداری کا دورہ بہت اہم وقت پر ہورہا ہے اور اس وقت کا پس منظر یہ ہے کہ چین اور پاکستان کے درمیان سیکیورٹی امور پر معاملات طے ہونے جا رہے ہیں۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چین کا کافی عرصے سے یہ اصرار تھا کہ پاکستان کی حکومت اپنے ملک میں چینی شہریوں اور منصوبوں کی سیکیورٹی کا جامع میکنزم بنائے۔

وہ کہتے ہیں کہ حال ہی میں بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے خلاف فوجی آپریشن کا آغاز اس بات کا عندیہ دیتا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے آگے بڑھا ہے اور قومی عزم کے ساتھ دہشت گردی کا خاتمہ چاہتا ہے تاکہ ملک میں امن و امان کی صورتِ حال بحال ہوسکے۔

حالیہ عرصے میں چینی شہریوں پر حملوں کے بعد بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق بیجنگ نے اسلام آباد سے مطالبہ کیا ہے کہ چینی سیکیورٹی اہلکاروں کو پاکستان میں تعینات کرنے کی اجازت دی جائے۔ تاہم پاکستان نے ان رپورٹس کی تردید کی تھی۔

'چین کے پاکستان میں سیکیورٹی سے متعلق خدشات ہیں'

چین کے امور کے ماہر محمد علی بیگ کہتے ہیں کہ صدر زرداری کا دورہ کچھ تاخیر سے ہو رہا ہے جس کی دعوت چینی صدر شی جن پنگ نے دی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ یہ دورہ اسٹریٹجک حیثیت کا حامل ہے جس کی عکاسی دفتر ِ خارجہ کے جاری بیان میں بھی ہوتی ہے کہ صدر زرداری اپنے دورے میں چینی قیادت کے ساتھ سیکیورٹی اور انسداد دہشت کے حوالے سے تعاون پر بات چیت کریں گے۔

محمد علی بیگ نے کہا کہ حالیہ عرصے میں خاص طور پر بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے اتحاد کے بعد پاکستان اور چین کے سیکیورٹی کے حوالے سے تحفظات بڑھے ہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ سال نومبر میں پاکستان اور چین کی انسدادِ دہشت گردی اور 'اسٹرائیک آپریشن' کی مشقیں تین ہفتے تک جہلم کے مقام پر جاری رہیں تھیں۔

یہ مشترکہ مشقیں ایسے وقت میں ہوئی ہیں جب پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور ان حملوں میں چینی شہریوں اور منصوبوں کو بھی ہدف بنایا گیا ہے۔

چین کی جانب سے سیکیورٹی کے حوالے سے بڑھتے خدشات کو دیکھتے ہوئے پاکستان نے گزشتہ برس 19 نومبر کو بلوچستان میں بڑے فوجی آپریشن کا اعلان کیا تھا۔

'حکومت سی پیک کا دوسرا مرحلہ آگے بڑھانے چاہتی ہے'

ڈاکٹر فضل الرحمن کہتے ہیں کہ موجود حکومت کی خواہش ہے کہ سی پیک کا دوسرا مرحلہ آگے بڑھے اور جاری منصوبے مکمل ہوں اور نئے منصوبے بھی شروع کیے جا سکیں۔

تاہم وہ کہتے ہیں کہ چین کی جانب سے بہت واضح انداز میں پاکستان کو باور کروایا گیا ہے کہ جب تک امن و امان کی صورتِ حال بہتر اور سیکیورٹی سے متعلق خدشات دور نہیں ہوتے سی پیک کو آگے بڑھانا ممکن نہیں ہے۔

ڈاکٹر فضل الرحمن کے مطابق صدر زرداری معاشی معاملات اور سی پیک پر بات چیت کریں گے البتہ سر فہرست پاکستان کی سیکیورٹی کے حوالے سے اقدامات ہی ہوں گے تاکہ چین کے خدشات دور کیے جاسکیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اس دورے کے نتیجے میں چین کی جانب سے دہشت گردی کے حوالے سے تجاویز پر کوئی متفقہ لائحہ عمل کا اعلان بھی سامنے آ سکتا ہے۔

محمد علی بیگ کہتے ہیں کہ چینی منصوبوں اور شہریوں پر زیادہ تر حملے بلوچستان اور سندھ میں ہوئے ہیں اور ان دونوں صوبوں میں صدر زرداری کی جماعت کی حکومت ہے لہذا وہ بہتر انداز میں چینی حکام کے تحفظات پر اقدامات کی یقین دہانی کروا سکیں گے۔

انہوں نے کہا کہ صدر زرداری کے دورے کے دوران چینی قیادت کے ساتھ اعلی سطح کے روابط میں سیکیورٹی کی صورتِ حال پر کوئی واضح حکمت عملی سامنے آسکتی ہے جس کی عملی شکل ہمیں آئندہ تین چار ماہ میں نظر آئے گی۔

چین پر پاکستان کے بڑھتے ہوئے انحصار کو دیکھتے ہوئے امریکہ پاکستان کو تنبیہ کرتا رہا ہے کہ چین پر بڑھتا ہو انحصار اس کی معیشت کے لیے بہتر نہیں رہے گا تاہم پاکستان ان خدشات کو غیر حقیقت پسندانہ قرار دیتا ہے۔

پاکستان کی پالیسی رہی ہے کہ وہ امریکہ اور چین کی درمیان تعلقات میں توازن رکھے گا تاہم مبصرین کے مطابق بدلتے ہوئے حالات میں اسلام آباد کے لیے یہ مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر فضل الرحمن کہتے ہیں کے امریکہ اور چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی نوعیت میں بہت فرق پایا جاتا ہے کیوں کہ خطے میں جیو پولیٹیکس کے حوالے سے پاکستان کا مفادات چین پر منحصر ہے جب کہ معاشی مفادات امریکہ سے وابستہ ہیں۔

لہذا وہ کہتے ہیں کہ موجودہ صورتِ حال میں پاکستان کسی ایک طرف جھکاؤ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

تاہم ان کے بقول صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کے لیے امریکی امداد پر عارضی پابندی کے بھی منفی اثرات سامنے آئیں گے۔

ڈاکٹر فضل الرحمن نے کہا کہ چین معاشی اعتبار سے بھی پاکستان کے ساتھ آگے بڑھنے کو تیار ہے لیکن بیجنگ کی جانب سے یہ تعاون سیاسی استحکام سے مشروط ہے۔

ان کے بقول چین کا مشورہ تھا کہ سیاسی استحکام پیدا کریں جس میں معاملات زندگی بہتر طریقے سے چل سکیں اور معاشی سرگرمیاں بڑھ سکیں لیکن وہ ابھی تک بنتا دکھائی نہیں دیتا۔

فورم

XS
SM
MD
LG