پاکستان میں بدھ سے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کے چرچے ہیں۔ مذکورہ ویڈیو میں خیبرپختونخوا کی مصروف شاہراہ پر مبینہ طور پر ایک فوجی افسر کی بیوی کو پولیس اہلکار کے ساتھ بدکلامی کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
مذکورہ ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ ہزارہ موٹر وے پر راستہ بند ہے اور گاڑیوں کی لائن لگی ہے۔ ایک خاتون راستہ کھولنے پر اصرار کر رہی ہے۔ لیکن پولیس اہلکار اُنہیں جانے کی اجازت نہیں دے رہا۔
خاتون اس پر سیخ پا ہو جاتی ہیں اور پولیس اہلکار کو کہتی ہیں کہ وہ کرنل کی اہلیہ ہیں، لہذٰا اُنہیں جانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکار اُنہیں بتاتا ہے کہ آپ نائب صوبیدار سے بات کریں، جس پر خاتون غصے میں کہتی ہیں کہ نائب صوبیدار کی کیا اوقات ہے۔
خاتون گاڑی سے اُتر کر خود بیریئر ہٹانے کی کوشش کرتی ہیں جس کی پولیس اہلکار مزاحمت کرتا ہے۔ خاتون ڈرائیونگ سیٹ پر موجود نوجوان کی جگہ خود ڈرائیونگ سنبھال لیتی ہیں اور پولیس اہلکار کو آگے سے ہٹنے اور کچلنے کی دھمکی دیتی ہیں۔
بعدازاں خاتون وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔
مانسہرہ کے سٹی تھانے میں اے ایس آئی اورنگزیب خان کی تحریری درخواست پر خاتون کے خلاف جمعرات کو مقدمہ بھی درج کر لیا گیا ہے۔
ٹوئٹر پر اب تک ہزاروں لوگ اس ویڈیو کو شیئر کر چکے ہیں جب کہ اس معاملے پر تبصروں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
کچھ صارفین اسے پاکستان میں طاقت ور طبقات کی اجارہ داری کی ایک مثال قرار دے رہے ہیں۔ وہیں خاتون کے سامنے ڈٹ جانے والے پولیس اہلکار کی بھی تعریف کی جا رہی ہے۔
عدنان مشتاق نامی صارف نے لکھا ہے کہ پولیس اہلکار نے صبر و تحمل کے ساتھ اپنا فرض ایمانداری سے پورا کیا، جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔
رضوان احمد خان نامی صارف نے لکھا ہے کہ کسی ایک فرد کے عمل پر پوری فوج پر سوال اُٹھانا نامناسب ہے۔
ایک صارف مظہر حسین چانڈیو نے اپنی ٹوئٹ میں کہا ہے کہ پہلے پاکستان میں کرنل کے چاول مشہور تھے، لیکن اب کرنل کی بیوی کے چرچے ہیں۔
ایک صارف نے دلچسپ ٹوئٹ کی ہے کہ 'نہ زنانی ہو سی نہ پریشانی ہو سی۔'
یعقوب نوہری نے عورت کو روکنے کی کوشش کرنے والے پولیس اہلکار کی تصویر شئیر کی اور کہا کہ قانون پر عمل کرنے والے پولیس اہلکار کو سلام جو کرنل کی بیوی کے سامنے کھڑا رہا۔
ایک صارف طیب ندیم مغل نے بالی وڈ فلم مغلم اعظم کی تصویر شیئر کی ہے۔ جس کو عنوان دیا گیا ہے کہ 'اُٹھو انار کلی یہاں سے کرنل کی بیوی نے گزرنا ہے۔'
خواجہ مبشر نامی صارف نے بالی وڈ فلم دبنگ کے ایک مکالمے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ کرنل سے ڈر نہیں لگتا صاحب کرنل کی بیوی سے لگتا ہے۔
صحافی اجمل جامی نے ٹوئٹ کی ہے کہ اطلاعات کے مطابق ڈسپلنری ایکشن کا آغاز کردیا گیا ہے۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے۔
سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ اس طرح کے واقعات کو صرف فوج کے ساتھ منسوب کرنا درست نہیں۔ اُن کے بقول پاکستان میں جس طاقت ور کو بھی موقع ملتا ہے وہ قانون توڑنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔
ڈاکٹر عسکری کے بقول یہ رویے بڑائی اور برتری کی عکاسی کرتے ہیں کہ ہم عام لوگوں سے بڑھ کر ہیں، لہذٰا ہم پر قانون لاگو نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ سیاست دان، بیورو کریٹ، پولیس افسر یہ سب معاشرے میں اپنی برتری دکھاتے ہیں۔ لہذٰا صرف فوج کو مورد الزام ٹھیرانا درست نہیں ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ جب تک ریاست قانون کے احترام کی اہمیت اُجاگر نہیں کرے گے، ایسے واقعات پیش آتے رہیں گے۔
بعض صحافیوں نے سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا ہے کہ آرمی چیف نے واقعے کا نوٹس لے کر مذکورہ لیفٹننٹ کرنل کے خلاف تادیبی کارروائی کا حکم دیا ہے۔ لیکن پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے تاحال ان دعووں کی تصدیق نہیں کی گئی۔
فوج نے اس واقعے پر بھی تاحال کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا۔
پاکستان میں ماضی میں بھی اس نوعیت کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ خاص طور پر شاہراہوں پر طاقت ور افراد اپنا تعارف کرا کر رعایت لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات کی ویڈیوز بھی منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔