ایوانِ نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی کی جانب سے واضح مشورے کے باوجود کہ اگلے ہفتے کانگریس کے دونوں ایوانوں کے اجلاس سے ’اسٹیٹ آف دی یونین‘ خطاب نہ کیا جائے، وائٹ ہاؤس 29 جنوری کی شام ٹیلی ویژن پر صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے قوم سے خطاب کا انتظام کر رہا ہے۔
اِس ضمن میں اتوار کے روز ایوانِ نمائندگان کے ’سارجنٹ ایٹ آرمز‘ کو ایک اِی میل بھیجا گیا ہے جس میں خطاب سے متعلق بتایا گیا ہے۔ یہ بات انتظامیہ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہی ہے۔
ساتھ ہی، وائٹ ہاؤس کے حکام نے مزید بتایا ہے کہ اس حوالے سے ایک مختلف مقام سے اس سالانہ خطاب کے متبادل انتظامات بھی کیے جا رہے ہیں، جس میں سیاسی ریلی بھی شامل ہوگی، اگر تب تک جزوی حکومتی بندش جاری رہتی ہے۔
اس سے قبل، وائٹ ہاؤس کے معاون پریس سکریٹری، ہوگن گڈلی نے ’فوکس نیوز‘ کو بتایا تھا کہ ’’نینسی پلوسی صدر کو پابند نہیں کرسکتیں کہ وہ امریکی عوام کے ساتھ یہ گفتگو کب کریں؛ کریں یا نہ کریں‘‘۔
گذشتہ ہفتے پلوسی نے ٹرمپ پر زور دیا تھا کہ وہ خطاب مؤخر کر دیں یا پھر قانون سازوں سے ہی خطاب کریں۔ اُنھوں نے سیکورٹی کی تشویش کا اظہار کیا تھا، اس بات کی جانب توجہ دلاتے ہوئے کہ امریکی خفیہ ادارہ اور ہوم لینڈ سیکورٹی کا محکمہ اُن اداروں میں شامل ہیں جنہیں دسمبر کے اواخر سے تنخواہ نہیں مل رہی ہے، جب کہ اُن کے محکمےامریکی حکومت کی اس چوتھائی میں شامل ہیں جو شٹ ڈاؤن کی شکار ہے۔
وائٹ ہاؤس نے اس بات کو مسترد کیا ہے کہ شٹ ڈاؤن کے نتیجے میں اس تقریب کی مناسب سیکورٹی میں کسی قسم کے مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں۔
ایوانِ نمائندگان کی اسپیکر سے حساب برابر کرنے کے اقدام کے طور پر، ٹرمپ نے کانگریس کے وفد کے دورہٴ افغانستان میں امریکی فوجی طیارے کے استعمال کی اجازت روک لی تھی، جس دورے میں وفد امریکی فوجیوں سے ملاقات کرنے والا تھا۔
صدر کے لیے لازم ہے کہ وہ قوم سے متعلق ایک سالانہ رپورٹ پیش کریں، لیکن اس بات کی شرط نہیں کہ وہ ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ کے دونوں ایوانوں سے خطاب کریں گے۔
ٹرمپ نے اتوار کے روز ایک ٹوئیٹ میں کہا تھا کہ وہ ’’کئی ایک آپشنز‘‘ پر غور کر رہے ہیں۔
گذشتہ سال صدر کا پہلا ’اسٹیٹ آف دی یونین‘ خطاب 80 منٹ تک جاری رہا تھا، جو امریکی تاریخ کی طویل ترین تقریر تھی۔
سال 1960ء میں صدر لینڈن جانسن کے دور سے یہ خطاب سالانہ ایوان نمائندگان سے خطاب کی صورت میں کیا جاتا ہے، جسے ’اسٹیٹ آف دی یونین‘ کا نام دیا جاتا ہے، جسے براہ راست ٹیلی ویژن پر نشر کیا جاتا ہے۔ اُسی دور میں یہ خطاب دن کو نہیں کیا جاتا بلکہ شام میں کیا جانے لگا، تاکہ ٹیلی ویژن کے ’پرائم ٹائم‘ کے دوران زیادہ سے زیادہ تعداد میں لوگ اسے دیکھ سکیں۔