عالمی ادارہٴ صحت نے کہا ہے کہ مغربی افریقہ میں ایبولا کا مرض جس تیزی سے پھیل رہا ہے اُسے اُسی شد و مد کے ساتھ پیش نہیں کیا گیا؛ اور سرکاری اعداد و شمار کے برعکس، بعید نہیں کہ یہ معاملہ دوگنا سنگین نوعیت کا ہو۔
ڈبلیو ایچ او کے معاون ڈایکرٹر جنرل، بروس الورڈ نے کہا ہے کہ گِنی میں انفیکشن کے اصل کیس 1.5 فی صد سے زیادہ ہوں، سیئرا لیون میں دوگنا جب کہ لائبیریا میں اس بیماری کی شدت 2.5 گنا زیادہ ہو۔
الورڈ نے یہ بات منگل کے روز جنیوا میں نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہی۔
اُن کا کہنا تھا کہ ایبولا وائرس سے ہونے والی اموات کی تعداد بڑھ کر 4447 ہو چکی ہے؛ جن میں سے تقریباً تمام اموات مغربی افریقہ میں ہی واقع ہوئی ہیں، جب کہ ایبولا کے مرض میں مبتلہ افراد کی تعداد 8900 سے تجاوز کر گئی ہے۔
اس سے قبل، منگل ہی کو اقوام متحدہ کا ایک طبی کارکن جسے لائبیریا میں خدمات انجام دیتے ہوئے ایبولا کا وائرس لگ گیا تھا، ایک جرمن اسپتال میں اُن کی موت واقع ہوگئی ہے۔ لپزگ میں ’سینٹ جارج اسپتال‘ نے منگل کے روز بتایا کہ فوت ہونے والا سوڈان کا شہری تھا، جن کی عمر 56 برس تھی۔ باوجود یہ کہ اُن کو ’انتہائی نگہداشت‘ میں رکھا گیا تھا، گذشتہ رات اُن کا انتقال ہوگیا۔
لائبیریا میں اقوام متحدہ کے مشن نے گذشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ چھ اکتوبر کو اُن کے عملے کا ایک شخص ایبولا کے عارضے میں مبتلہ ہوگیا تھا اور یہ کہ وہ 41 افراد جن سے اُن کے ساتھ اُن کا کسی طرح کا کوئی رابطہ ہوسکتا تھا، اُن میں اِس بیماری کی علامات کی تشخیص نہیں ہوئی۔
لائبیریا ایبولا وائرس پھیلنے کا بدترین شکار ہے، جہاں اس بیماری کے مشتبہ اور تصدیق شدہ کیسز سب سے زیادہ ہیں۔
لائبیریا کے ہیلتھ ورکرز کی تنظیم نے مطالبہ کیا ہے کہ ایبولا کے ممکنہ کیسز سے تعلق میں آنے کے امکان کے باعث، اُنھیں خصوصی تنخواہ دی جائے۔ ہڑتال کی کال کے باوجود، پیر کو صحت سے متعلق زیادہ تر کارکن ڈیوٹی پر حاضر ہوئے۔
ڈبلیو ایچ او کی سربراہ، ڈاکٹر مارگریٹ چان نے پیر کے روز کہا کہ لائبیریا، گِنی اور سیئرا لیون میں ایبولا کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ اس صورت حال سے اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ صحت کی کسی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے سلسلے میں ہماری تیاری کتنی ناقص ہے۔