خوشی سے کھنکتی آوازیں، رنگ برنگی چادروں سے ڈھکا کیمپ اور تالیوں و موسیقی کی تھاپ پر ناچتے لوگ ۔۔ مزیدار کھانے سے لطف اندوز ہوتی خواتین۔۔
یقیناً یہ منظر شادی کی ایک تقریب کا ہے لیکن یہ شادی دنیا کے کسی بھی حصے میں ہونے والی شادی کی تقریبات سے بالکل مختلف ہے۔ کیوں؟۔۔ کیونکہ یہ شادی روہنگیا پناہ گزینوں کے کیمپ میں انجام پائی۔
بنگلہ دیش کے کاکس بازار میں قائم کٹو پالونگ مہاجر کیمپ میں ساڑھے چھ لاکھ سے زائد روہنگیا پنا ہ گزینوں میں شامل زندگی کے نئے سفر کا آغاز کرنے والی شفیقہ بیگم کے ہاتھ روایتی دلہنوں کی طرح مہندی سے سجے تھے۔
ان کے دولہا صدام حسین بھی عام دولہوں کی طرح مہمانوں میں گھرے تھے ،بس فرق تھا تو یہ کہ شفیقہ بیگم اور صدام حسین کی شادی کسی میرج ہال یا ان کے گھر کے بجائے گھر اور وطن سے ہزاروں میل دور بانسوں سے بنے پلاسٹک کی شیٹوں سے ڈھکے کیمپ میں انجام پائی۔
میانمار کے صوبے رخائن کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھنے والے 23 سالہ صدام اور اٹھارہ سالہ شفیقہ نے اپنے علاقے میں تشدد کی لہر پھیلنے سے پہلے شادی کی منصوبہ بندی کی تھی جو ان کے گاؤں کے بجائے بنگلہ دیش کے مہاجر کیمپ میں ہوئی۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق صدام کا خاندان میانمار میں دکانداری کرتا تھا لیکن میانمار کے فوجیوں کی جانب سے دکانیں لوٹنے اور گھروں و دکانوں کو آگ لگائے جانے کے بعد یہ خاندان ہجرت کر کے بنگلہ دیش پہنچ گیا۔ مہاجر کیمپ پہنچنے کے تین ماہ بعد صدام اور شفیقہ کی شادی کی تقریب ہوئی۔
بدترین حالات سے گزر کر بنگلہ دیش کے مہاجر کیمپ میں بے یقینی کے سائے میں زندگی گزارنے کے باوجو د دولہا ،دلہن کے رشتے داروں اور کیمپ میں رہائش پذیر لوگوں نے شادی کی تقریب کو یادگار بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور ہر رسم عام شادی کی طرح بھرپور طریقے سے ادا کی ۔
کمبلوں سے سجے چھوٹے سے ایک کیمپ میں نکاح کی رسم ہوئی جس میں صرف مردوں نے شرکت کی۔ شادی کے دن شفیقہ کو ایک الگ ٹینٹ میں رکھا گیا جہاں صرف خواتین رشتے داروں کو ہی جانے کی اجازت تھی۔
تقریب کا ’کلائمکس‘ کہیں تو وہ ایک بڑے ٹینٹ میں 20 مہمانوں کو کھانا کھلانے کے بعد شروع ہوا۔ کھانے کے لئے تقریب سے ایک دن پہلے گائے ذبح کی گئی۔ پہلے مردوں نے کھانا کھایا ،پھر خواتین اور آخر میں بچوں کی باری آئی۔ خیمہ بستی کے دیگر بچوں کو پلاسٹک کی تھیلیوں میں کھانا دیا گیا لیکن اس موقع پر کھانے کے لئے جھپتا جھپٹی بھی ہوئی ۔
کھانے کے بعد ٹیبل اور پلاسٹک کی کرسیوں کو ہٹا لیا گیا اور لاؤڈ اسپیکر ٹانگ دیا گیا۔ قاعدہ طور پر ایک پروفیشنل ڈانسر نے اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ شروعات کی اور پھر سب ہی ناچ گانے اور ہلا گلا کرنے میں مصروف ہو گئے۔
دولہا صدام حسین بہت خوش تھے ۔شادی کے علاوہ خوشی کی ایک وجہ انہوں نے یہ بھی بتائی کہ یہاں کچھ پیسے نہیں دینا پڑے، مفت میں شادی ہوگئی۔ ہمارے گاؤں کی انتظامیہ شادی کرنے والے جوڑے سے پانچ لاکھ یات یا 370 ڈالرز لیتی ہے۔
شادی کی گہماگہمی اور خوشی میں بھی صدام اور شفیقہ کو مستقبل کا خوف ستا رہا تھا۔ صدا م کے بقول ’ہم ابھی اپنی فیملی نہیں بنائیں گے۔ ہمیں یہاں رہنا ہے یا واپس میانمار جانا ہے اس کا انتظارکریں گے۔ میں صرف اس صورت میں واپس جاؤں گا اگر مجھے میانمار کی قومیت ملے ۔‘
میانمار میں گزشتہ سال25 اگست کو روہنگیا جنگجوؤں نے سیکورٹی فورسز پر حملہ کیا جس کے بعد سیکورٹی فورسز نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ایک بے رحمانہ آپریشن شروع کیا جسے اقوام متحدہ نے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی قرار دیا۔
میانمار کے مسلمانوں کی اکثریت میانمارکی شہریت سے محروم ہے۔ اپنی جمع پونجی ،گھر دکانیں لٹنے اور جلائے جانے کے بعد چھ لاکھ سے زائد روہنگیا اپنا وطن چھوڑ کر جان کے خوف سے بنگلہ دیش کے مہاجر کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔