امریکا میں کرونا سے بچاؤ کی ویکسین عام دستیاب ہونے اور گرمی کا موسم شروع ہونے کے بعد نئے جوڑے شادیاں کرنے کے لئے بے تاب نظر آرہے ہیں۔ شادیوں کی تقریبات کو یادگار بنانے والے ویڈنگ پلانرز یعنی شادیوں کی تقریبات کی منصوبہ بندی کرنے کے کاروبار دوبارہ چمک اٹھے ہیں اور تاریخوں کی کمی کی وجہ سے اب نئی بکنگز 2022 کے اواخر اور 2023 کی تاریخوں میں کی جارہی ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق، کووڈ کیسز میں کمی اور بڑی تقریبات پر پابندیوں میں نرمی کے ساتھ امریکہ میں شادی کے خواہشمند افراد بڑی تعداد میں شادی کے ہالز یا پنڈال، شادیوں کے پلانرز، عروسی ملبوسات کے ڈیزائنرز اور کیٹرنگ کمپنیوں کا رخ کر رہے ہیں۔ ان میں ایسے جوڑے بھی شامل ہیں جو پابندیوں کے دوران سادہ تقاریب میں رشتہ ازدواج میں تو منسلک ہوچکے تھے مگر اب باقاعدہ ایک بڑی تقریب کا اہتمام کر کے دوستوں اور رشتے داروں کو بھی اپنی خوشی میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔
نمیشا بالاگوپال اور سہاس پرساد کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والا ایک ایسا ہی جوڑا ہیں جنہیں گزشتہ سال کرونا وبا کی وجہ سے شادی انتہائی سادگی سے کرنا پڑی تھی۔ نمیشا بہت خوش ہیں کہ اب ایک بڑی تقریب میں 230 مہمانوں کے سامنے دلہن بننے کا ان کا خواب پورا ہوگا لیکن یہ سوچ انہیں اداس بھی کر دیتی ہے کہ بھارت میں موجود ان کے خاندان کے افراد وہاں کرونا وبا کی صورت حال کی وجہ سے اب بھی ان تقریبات میں شرکت نہیں کر پائیں گے۔ نمیشا اور پرساد نے شادی کی سات تقریبات کے لئے سات مختلف ملبوسات بنوائے ہیں۔
شادیوں کی ڈیمانڈ اس قدر زیادہ ہے کہ نیویارک فوڈ ٹرک کمپنی کے سربراہ بین گولڈبرگ کا فون مستقل بج رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں شادی کی تقریبات کی ڈیمانڈ ان کی استعداد سے زیادہ ہے اور ان کے پاس ٹرک کم پڑ گئے ہیں۔ بین کہتے ہیں 'ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا'۔
عروسی ملبوسات کی تیاری کے لئے مشہور کمپنی گلوبل جسٹن الیگزینڈر گروپ کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی نے گزشتہ سال اپریل اور مئی کے مقابلے میں اس سال تقریباً چھ گنا زیادہ بکنگز کی ہیں۔
شادیوں کی تقریبات میں اضافے کے ساتھ ان سے جڑے تمام کاروباروں کی قیمتوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ تاہم وینڈرز کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ وہ اپنا گزشتہ سال کا نقصان پورا کرنے کی کوششوں میں ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ بڑھ جانے والے کام کے بوجھ کی وجہ سے انہیں نا صرف مزید افراد کی خدمات درکار ہیں بلکہ زیادہ طلب اور کم رسد کی وجہ سے کئی اشیا کے لئے زیادہ قیمت بھی ادا کرنا پڑ رہی ہے۔