رسائی کے لنکس

غزہ میں 'جنگ کی قیمت' ادا کرتے بچوں کو نفسیاتی مدد مل سکے گی؟


فلسطینی بچے (فائل فوٹو)
فلسطینی بچے (فائل فوٹو)

سات سالہ فلسطینی شہری سوزی اشکونتانہ اپنے نئے کھلونوں اور کپڑوں سے کچھ دیر تو بہل جاتی ہیں، مگر ان کی اصل متاع ان کے والد ہیں جنہیں وہ اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتیں۔

اور کیوں نا ہو۔۔۔۔ ابھی دو ماہ پہلے ہی تو ریسکیو اہل کار کئی گھنٹوں کی محنت کے بعد انہیں ان کے گھر کے ملبے سے نکال پائے تھے۔ گرد آلود بالوں، چہرے پر چوٹوں کے نشان اور سوجے ہوئے جسم کے ساتھ جب سوزی کو باہر نکالا گیا تو ان کی دنیا ہی الٹ چکی تھی۔

16 مئی کو ہونے والی بمباری میں سوزی کی والدہ اور چار بہن بھائی مارے گئے تھے۔ جس گھر میں چند گھنٹوں قبل تک وہ اپنے بھائی بہنوں کے ساتھ کھیل رہی تھیں، اب سے کچھ دیر پہلے وہ اسی گھر کے ملبے تلے اپنے بھائی زین اور بہن دانا کی 'بابا، بابا' کی پکار، آہیں اور سسکیاں سن رہی تھیں۔ اس سانحے میں سوزی کے والد ہی زندہ بچ پائے تھے اور اب وہ کسی قیمت پر اپنے اس واحد سہارے کو کھونا نہیں چاہتیں۔

16 مئی کو غزہ کی پٹی کے گنجان آباد علاقے میں ہونے والے بم حملے میں 16 خواتین اور 10 بچوں سمیت 42 فلسطینی مارے گئے تھے۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے ان کا نشانہ حماس کی سرنگیں تھیں۔

غزہ حکام کے مطابق 2021ء میں ہونے والی ان جھڑپوں اور حملوں میں 66 بچوں کی جانیں گئیں۔

سوزی کی کہانی خبر رساں ادارے اے پی کی کہانیوں کے اس سلسلے کا حصہ ہے، جو غزہ میں گزشتہ 13 سال کے دوران ہونے والی چار جنگوں کے بارے میں 'جنگ کی قیمت' کے عنوان سے شائع کی جارہی ہیں۔

سوزی کے جسمانی گھاؤ تو مندمل ہو چکے ہیں، مگر ان کی روح کو پہنچنے والے دکھ کا کوئی مداوا نہیں۔ سوزی کی طرح بچ جانے والے اور بھی بہت سے بچے ہیں۔ سوزی کے والد ریاد اشکونتانہ کہتے ہیں 'میرے مارے جانے والے بچے اور بیوی اب محفوظ جگہ پر ہیں، مجھے اب خوف ہے، تو سوزی کے لئے ہے'.

ایسوسی ایٹڈ پریس کی جانب سے غزہ کے تازہ مناظر کی منظر کشی یہ بتاتی ہے کہ جنگ اور کرونا وبا کے باعث اسکول بند ہیں اور یہاں بچوں کو مصروف رکھنے کے لئے کچھ نہیں۔ اس لئے وہ دن بھر خاکستر مکانوں کے ملبے کے اطراف منڈلاتے دکھائی دیتے ہیں۔

یہ بچے زیادہ تر غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ جہاں کی آدھی سے زیادہ آبادی پہلے ہی کسمپرسی میں زندگی گزار رہی تھی اور وبا کی وجہ سے مزید لوگوں کا روزگار چھن چکا ہے۔

اے پی سے بات کرتے ہوئے غزہ کمیونٹی مینٹل ہیلتھ پروگرام کے سربراہ یاسر ابو جامی نے بتایا کہ ان میں کئی بچے چڑچڑے نظر آتے ہیں، کچھ خوفزدہ رہتے ہیں، تنہائی سے ڈرتے ہیں اور بعض رات میں بستر گیلا کر دیتے ہیں۔ یہ تمام صدمے یا ٹراما کی علامات ہیں۔

بچے غزہ کی آبادی کا 48 فیصد بنتے ہیں۔ مگر ان 10 لاکھ بچوں کے لئے پورے غزہ میں صرف ایک لائسنس یافتہ ماہر نفسیات ہے۔ اس طرح ان بچوں کو اپنی زندگی معمول پر لانے میں مدد کرنے والا کوئی نہیں ہے۔

یہ بچے جنگ بندی کے دنوں میں بھی جنگی جہازوں کی گرج، فضائی حملوں کی گڑگڑاہٹ اور فضا میں بلند ڈرونز کی بھنبھناہٹ سننے کے عادی ہیں اور جنگ کے دنوں میں تو کوئی جگہ محفوظ نہیں رہتی۔ ابو جامی کہتے ہیں 'زندگی یہاں کبھی معمول پر واپس نہیں آتی'.

سوزی کے والد ریاض اشکونتانہ بتاتے ہیں کہ حملے سے قبل سوزی پیدل اپنے اسکول جایا کرتی تھی، اپنی بہن دانا کے ساتھ پھل اور سبزی خریدنے جاتی تھی اب وہ اپنے والد سے ایک لمحے بھی علیحدہ نہیں ہونا چاہتی۔ لوگوں سے بات کرنے میں دقت محسوس کرتی ہے اور گھنٹوں خاموش موبائل فون پر گیمز کھیلتی رہتی ہے۔ 'ایسا لگتا ہے جیسے اپنی ماں کو کھونے کے ساتھ سوزی نے دنیا میں رہنے اور لوگوں سے بات چیت کا فن بھی کھو دیا ہے۔'

ایسی ہی ایک کہانی المصری خاندان کی بھی ہے۔ دس مئی کا دن تھا، شام چھ بج رہے تھے۔ غزہ اور اسرائیل کی سرحد کے قریب بیت حنون کے علاقے میں یہ خاندان اپنے گھر سے متصل کھیتوں میں گندم کی کاشت میں مصروف تھا۔ جہاں بڑے افطار کا انتظار کر رہے تھے، بچے پڑوس کے بچوں کے ساتھ کھیلنے میں مصروف تھے۔

14 سالہ بتول المصری اپنے دو سالہ کزن یزان کو بہلا رہی تھیں کہ ایک زوردار دھماکہ ہوا۔

بتول کے والد محمد عطاللہ المصری کہتے ہیں کہ یہ نہیں معلوم کہ راکٹ اسرائیل کی طرف سے آیا یا حماس کی جانب سے۔ مگر ایک لمحے میں چھ بچوں سمیت آٹھ لوگ اپنی جان سے چلے گئے۔

اپنے زخموں سے بے خبر بتول اپنے ننھے کزن کو بچانے کی کوششیں کرتی رہیں جو خون میں لہولہان ان کے ہاتھوں میں ہی دم توڑ گیا۔

بتول بچ گئیں، سر میں چوٹ لگنے کے باوجود ان کا آٹھ سالہ بھائی قاسم بھی بچ گیا مگر قاسم کا ہی ہم عمر ان کا کزن اور بہترین دوست مروان اور اس کا بڑا بھائی ابراہیم بھی اس حملے میں مارے گئے۔ قاسم اور مروان ہر لمحہ یہاں تک کہ اسکول میں بھی ساتھ ساتھ ہی رہتے تھے۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم تھے مگر پھر موت نے ان کو جدا کر دیا۔

اس واقعے میں بتول اور قاسم کی 10 سالہ بہن رحیف اور 21 سالہ بھائی احمد بھی مارے گئے، جب کہ 22 سالہ بھائی حمودہ کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی۔ احمد کی ایک ہفتہ بعد ہی شادی ہونے والی تھی۔

بتول اور قاسم کے والد بتاتے ہیں کہ اس حملے کے بعد قاسم اب پہلے جیسا بچہ نہیں رہا۔ وہ خود سے باتیں کرنے لگا ہے۔ رات کو وہ خوف کے مارے باتھ روم جانے سے بھی گھبراتا ہے، جب کہ بتول چڑچڑی ہو چکی ہے۔ شام ہوتے ہی سہمی ہوئی نظر آتی ہے۔ اکثر روتی رہتی ہے۔ راتوں کو نیند سے اٹھ جاتی ہے اور کھانا کھانے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں لیتی۔

ان کے والد کہتے ہیں 'جو انہوں نے دیکھا وہ خوف ناک تھا، یہ معصوم بچے ہیں'.

قسمت کی ستم ظریفی کی ایک اور داستان بھی ملاحظہ فرمائیے۔

مئی کا ہی مہینہ تھا اور دن تھا عید کا۔۔۔ اپنی عیدی اور نئے کھلونوں سے کھیلنے کی بجائے ابو معاد خاندان کے بچے اپنی زندگی کے لئے ایک جگہ سے دوسری جگہ دوڑ رہے تھے۔

یہ گھرانہ عید کی تیاریاں ہی کر رہا تھا جب فضائی حملے شروع ہوئے۔ ان کی آٹھ ماہ کی حاملہ ماں اپنے چار بچوں کو گھر سے لے کر دوڑیں جب شمالی غزہ میں ان کا گھر ان کی آنکھوں کے سامنے ڈھیر ہو گیا۔

اس افراتفری میں آٹھ سالہ مایا ابو معاد اپنی والدہ سے بچھڑ گئیں۔ تنہا گھبرائی ہوئی بچی دیکھ کر کسی نے ان کو گزرتی ایمبولینس میں بٹھا دیا۔ اگلے پندرہ منٹ یہ بچی اپنی ماں سے جدا، جان کی بازی ہارتے زخمیوں کے ساتھ گاڑی میں بند بیٹھی رہی۔

چھ گھنٹے بعد مایا کا خاندان انہیں تلاش کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ مایا کا چھ سالہ بھائی عدے جس نے ایسے مناظر پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے، شدید خوف اور صدمے کی کیفیت میں ہے۔ مئی کے واقعات سے قبل مایا ایک پر اعتماد لڑکی تھی۔ صاف کپڑے پہننا، بال بنائے رکھنا اور سجنا سنورنا اس کا شوق تھا۔

آج ان کا خاندان اقوام متحدہ کے ایک اسکول میں پناہ لئے ہوئے ہے۔ مایا بار بار اپنے گھر جانے کا کہتی ہے مگر ان کے والد جو ایک ڈرائیور ہیں، اتنی مالی سکت نہیں رکھتے کہ گھر دوبارہ سے تعمیر کرا سکیں۔ مایا اپنی نئی حقیقت سے فرار کی کوشش میں پورا دن خاموشی کے ساتھ ٹک ٹاک پر وڈیوز دیکھ کر گزارتی ہے۔

مایا اور عدے کے والد کہتے ہیں کہ پہلے ہر وقت خوش رہنے والے ان کے بچے اب ویسے رہے ہی نہیں۔ وڈیوز میں دوسرے لوگوں کو خوش و خرم زندگی گزارتے دیکھ کر یہ سوالات کرتے ہیں جن کا میرے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔

یہ بچے اب راتوں کو اٹھ کر روتے ہیں اور دن میں چڑچڑے نظر آتے ہیں۔

غزہ کی حالیہ کشیدگی 14 سالہ لاما کے لئے کسی ڈراؤنے خواب کی واپسی سے کم نہیں۔ 2014 کی جنگ میں جب اسرائیلی فورسز بیت الحنون میں در آئی تھیں، لاما نے اپنے خاندان کے ساتھ اقوام متحدہ کے اسکول میں پناہ لی۔ وہاں بھی موت نے ان کے خاندان کا پیچھا نہ چھوڑا۔ ایک رات اسرائیلی شیلنگ میں ان کے تین کم عمر کزنز سمیت 13 افراد مارے گئے۔

سال 2014ء کی ان جھڑپوں اور حملوں میں 21 سو فلسطینی ہلاک ہوئے تھے۔

لاما کے والد بتاتے ہیں کہ وہ بظاہر تو ٹھیک نظر آتی ہیں مگر کھوئی کھوئی رہتی ہیں، اس کے بعد سے ان کے اسکول کے گریڈز بھی خراب رہنے لگے۔

ابھی لاما پچھلے واقعات کے ٹراما سے ہی نہیں نکل پائیں تھیں کہ 2020ء میں اپنی نانی کے گھر رات اپنی والدہ اور بہنوں کے ساتھ سوتے ہوئے ایک بار پھر ان پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ اب کی بار اسرائیل کے اس میزائل حملے میں گھر کی دیواریں گر گئیں۔ نہ جانے کتنے کانچ کے ٹکڑوں، دھات کے نوکیلے حصوں اور ننگی تاروں سے گزر کر انہیں بالآخر اک ہسپتال میں پناہ مل پائی۔

اب لاما ہر وقت اپنے والدین کے پہلو میں ہی رہتی ہیں اور الگ ہونے کو تیار نہیں۔

سوزی، بتول، قاسم اور لاما اور ان جیسے ان گنت بچے کبھی اپنے والدین کے آنگن میں خوشیوں بھری زندگی گزار رہے تھے۔ آج یا تو وہ اس دنیا میں ہیں ہی نہیں اور اگر ہیں تو ان کی زندگیاں اب پہلے جیسی نہیں رہیں۔

اپنے پیارے کھو دینے، گھر چھن جانے، اور غیر متوقع بمباریوں نے ان کی زندگی پر ایسے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں جو شاید کبھی دھندلا نہ پائیں۔ ماضی کی یادیں، موجودہ بے چارگی کی صورت حال اور مستقبل کی بے یقینی نے ان آنکھوں کی رونق اور قلب کا سکون چھین لیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے پی کی یہ کوشش ' دا کاسٹ آف وار' یعنی 'جنگ کی قیمت' نامی سیریز کا حصہ ہے جہاں ان آپ بیتیوں کی ذریعے جنگ کے انسانی زندگی پر اثرات کی عکاسی کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

XS
SM
MD
LG