رسائی کے لنکس

وی او اے اردو پر 2021 میں سب سے زیادہ کیا پڑھا گیا


وائس آف امریکہ سال بھر پیش آنے والے واقعات کے مختلف پہلو آپ کے سامنے لاتا رہا اور آپ دلچسپی سے انہیں دیکھتے اور پڑھتے رہے۔ صحافی تو اپنی ہر خبر پر محنت کرتا ہے مگر کون سی خبر پڑھنے والوں کو اچھی لگے گی اس کا کوئی طے شدہ فارمولہ نہیں ہے۔
وائس آف امریکہ سال بھر پیش آنے والے واقعات کے مختلف پہلو آپ کے سامنے لاتا رہا اور آپ دلچسپی سے انہیں دیکھتے اور پڑھتے رہے۔ صحافی تو اپنی ہر خبر پر محنت کرتا ہے مگر کون سی خبر پڑھنے والوں کو اچھی لگے گی اس کا کوئی طے شدہ فارمولہ نہیں ہے۔

آج سال 2021 کا آخری دن ہے۔ کرونا وبا کے خاتمے کی بھرپور کوشش اور ویکسین کی دستیابی کی باوجود اس برس کا اختتام بھی وبا کی ایک لہر کی آمد کے اندیشے کے ساتھ ہو رہا ہے۔

اس برس جہاں مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافے نے عام انسان کو متاثر کیا وہیں ارب پتی افراد کی فہرست میں بھی کئی نئے افراد شامل ہوئے۔

ایک جانب سخت گیر نظریات رکھنے والے طالبان کے حکومت سنبھالنے پر لاکھوں لوگ در بدر ہوئے تو دوسری جانب آزاد معاشرے میں انسان خلا کی سیر بھی کر آیا۔

وائس آف امریکہ سال بھر پیش آنے والے واقعات کے مختلف پہلو آپ کے سامنے لاتا رہا اور آپ دلچسپی سے انہیں دیکھتے اور پڑھتے رہے۔

صحافی تو اپنی ہر خبر پر محنت کرتا ہے مگر کون سی خبر پڑھنے والوں کو اچھی لگے گی اس کا کوئی طے شدہ فارمولہ نہیں ہے۔

آیے ایک نظر ڈالتے ہیں ان خبروں پر جنہیں آپ نے وائس آف امریکہ کی ویب سائٹ پر سب سے زیادہ پڑھا۔

10۔ اورنگزیب بادشاہ کا خزانہ لوٹنے والے قاتل بحری قذاق کا کھوج مل گیا

وائس آف امریکہ اردو پر 2021 میں دسویں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبر کا تعلق دراصل 17ویں صدی سے ہے جب 1696 میں حج سے واپسی پر مغل شہنشاہ اورنگزیب کے بحری جہاز پر انگریز قذاقوں نے حملہ کیا۔

اس حملے میں مردوں کے قتل عام اور خواتین کی عصمت دری کے بعد قذاق سونے اور چاندی کے بیش قیمتی سکے اپنے ساتھ لے گئے۔

ان قذاقوں کے سربراہ ہنری ایوری کے بارے میں خیال کیا جا رہا تھا کہ واردات کے بعد وہ آئرلینڈ کی طرف فرار ہوئے۔ اس بین الاقوامی تنازعے نے ہنری ایوری کو دنیا کا پہلا مطلوب ترین شخص بنا دیا تھا۔

بالآخر سال 2021 میں امریکہ میں نیو انگلینڈ کے علاقے سے دریافت ہونے والے عربی الفاظ کے کندہ ہوئے چند سکوں سے یہ پتا لگا کہ ہنری ایوری اور اس کے گروہ کے افراد برطانیہ کی امریکہ میں موجود نو آبادیات میں آ کر بسے اور انہوں نے یہاں بھی لوٹ مار کر بازار گرم رکھا۔

9۔ ’ملالہ کے انٹرویو کو بد نیتی اور منفی تاویلات کے ساتھ پیش کیا گیا‘

نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کے برطانوی فیشن میگزین 'برٹش ووگ' کو دیے گئے انٹرویو نے پاکستانی سوشل میڈیا پر ہلچل مچا دی تھی۔

انٹرویو میں ایک سوال کے جواب میں ملالہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ اگر آپ کسی شخص کو اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے شادی کے کاغذات پر دستخط کرنا کیوں ضروری ہے؟ صرف پارٹنر شپ کیوں نہیں کی جا سکتی؟

پاکستان میں اکثریت نے اس بیان پر منفی ردِ عمل ظاہر کیا۔ ملالہ کے والد ضیاء الدین یوسف زئی نے اپنی بیٹی کی حمایت میں سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا کہ ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا نے ان کی بیٹی کے انٹرویو کے اقتباس کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا ہے۔

بعض مبصرین کے مطابق ضیاء الدین یوسف زئی شاید درست ہی کہہ رہے تھے کیوں کہ اس انٹرویو کے محض چند ماہ بعد ہی ملالہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئی تھیں۔

8۔ امریکہ میں شدید گرمی کی لہر؛ کیا یہ آب و ہوا کی تبدیلی کا عمل تو نہیں؟

عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے خبریں اس سال بھی زیرِ گردش رہیں۔

نومبر میں دنیا بھر کے رہنما ماحولیاتی تبدیلیوں کے مسئلے پر گلاسگو میں سر جوڑ کر بیٹھے تو ماحولیات سے جڑے کارکنوں نے اسے عالمی طاقتوں کی جانب سے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف قرار دیا۔

وائس آف امریکہ کی ویب سائٹ پر آٹھویں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبر امریکہ میں سیاحوں میں مقبول ساحلی علاقے میامی میں ایک 12 منزلہ رہائشی عمارت کے زمین بوس ہونے کے بارے میں تھی۔ اس حادثے میں 98 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

ماہرین کے مطابق عمارت کو نمک ملے اس پانی سے نقصان پہنچا جو اکثر اس کے زیرِ زمین گیراج میں جمع ہو جاتا تھا۔

اور پانی کے یوں جمع ہو جانے کی وجہ سطح سمندر کا مسلسل بلند ہونا ہے جو غیر محسوس طریقے سے سطحِ زمین پر نمک کی تہہ بچھاتا جا رہا ہے۔

امریکہ میں شہری اس حادثے سے سنبھل بھی نہیں پائے تھے کہ ملک کی شمال مغربی ریاستیں شدید گرمی کی لپیٹ میں آ گئیں۔

جن شہروں میں شدید گرم موسم میں بھی درجۂ حرارت معتدل رہتا ہے وہاں گرمی کے سب ریکارڈ ٹوٹ گئے اور تپش کی شدت سے سڑکوں کی تار کول کی سطح پگھل کر زمین سے الگ ہو گئی۔ تاریں پگھل گئیں جن کی بعد میں مرمت کی گئی۔

7۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ: بھارت کی سیمی فائنل تک رسائی کے امکانات

رواں برس متحدہ عرب امارات میں ہونے والا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا اصل میزبان تو بھارت تھا البتہ وہاں کرونا کے پھیلاؤ کے سبب اس ایونٹ کو یو اے ای منتقل کرنا پڑا۔

ٹورنامنٹ سے پہلے عوام کو پاکستان کرکٹ ٹیم سے زیادہ توقعات نہیں تھیں مگر پاکستان کرکٹ ٹیم حیرت انگیز طور پر سیمی فائنل تک نا قابل شکست رہی جس سے پاکستانیوں کی توقعات کئی گنا بڑھ گئیں۔

پاکستان چوں کہ کچھ دنوں پہلے ہی نیوزی لینڈ کی ٹیم کے میچ کھیلے بغیر واپسی کا زخم کھا چکا تھا اس لیے ٹورنامنٹ میں نیوزی لینڈ کو شکست دی تو سوشل میڈیا صارفین نے اسے بدلے سے تعبیر کیا۔

رہ گیا ہاکستان کی ٹیم کا روایتی حریف بھارت۔ اس کی ورلڈ کپ میں پاکستان کے ہاتھوں پہلی بار شکست پر تو پاکستانی شائقین نے بھر پور خوشی کا اظہار کیا۔

البتہ ورلڈ کپ کی فیورٹ ٹیم بھارت مشکلات کا شکار ہو چکی تھی اور شائقین کرکٹ نے اس خبر میں خاص دلچسپی دکھائی جس میں مختلف جوڑ توڑ اور امکانات پر روشنی ڈالی گئی تھی کہ بھارت کس طرح گیم میں واپس آسکتا ہے۔

البتہ بھارت کی ٹیم اس سے قبل ہی ورلڈ کپ سے باہر ہو گئی تھی۔

6۔ بالی وڈ اور لالی وڈ کے وہ جوڑے جن کی شادی نے مداحوں کو حیران کر دیا

فلم اسٹارز کی زندگی میں چکا چوند تو رہتی ہی ہے اور جب دو ستارے شادی کے بندھن میں بندھنے کا فیصلہ کر لیں تو چمک دمک بھی دو بالا ہو جاتی ہے اور مداحوں کی خوشی بھی۔

کترینہ کیف اور وکی کوشل کی شادی کے موقعے پر وائس آف امریکہ کے صحافی عمیر علوی نے اس فیچر میں بالی وڈ اور لالی وڈ کی مشہور جوڑیوں کا تعارف کرایا جن کی شادی ہو چکی تھی۔

ان میں دلیپ کماراور سائرہ بانو، امیتابھ بچن اور جیا بہادری، محمد علی اور زیبا، راجیش کھنا اور ڈمپل کپاڈیا، حمزہ عباسی اور نیمل خاور، فلک شبیر اور سارہ خان، منظر صہبائی اور ثمینہ احمد اور دھرمیندر و ہیما مالنی کی شادیوں کا ذکر کیا گیا۔

5۔ گاڑی چھیننے کے دوران پاکستانی اوبر ڈرائیور ہلاک، 15 سالہ امریکی لڑکی کو سزا

آپ کی جانب سے سب سے زیادہ پڑھی جانے والی پانچویں خبر امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں ایک پاکستانی اوبر ڈرائیور سے گاڑی چھیننے کی کوشش کرنے والی 15 سالہ لڑکی کو سزا ملنے کے بارے میں تھی۔

عدالت نے اس لڑکی کی عمر 21 برس ہونے تک اسے قید میں رکھنے کی سزا سنائی تھی۔ کار جیکنگ کے اس واقعے میں محمد انور ہلاک ہوئے تھے۔

اسی جرم میں معاونت پر ایک اور 13 سالہ لڑکی کو 'سیکنڈ ڈگری مرڈر' کے تحت سزا سنائی گئی۔ اسے بھی 21 برس کی عمر تک پہنچنے کے بعد رہا کیا جائے گا۔

رواں برس 23 مارچ کو پیش آنے والے اس واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں محمد انور کو کار میں موجود لڑکیوں سے بحث کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

ویڈیو میں محمد انور کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ یہ چور ہیں، یہ میری کار ہے۔

وائرل ویڈیو میں دیکھا گیا کہ کار میں موجود لڑکیوں نے گاڑی کو تیزی سے بھگایا، اس دوران محمد انور گاڑی سے لٹکے رہے جس کے بعد گاڑی آگے جاکر دوسری گاڑیوں سے ٹکرانے کے بعد الٹ گئی جس کے نتیجے میں محمد انور ہلاک ہوئے۔

4۔ افغان نائب صدر کی 'سقوطِ ڈھاکہ' کی تصویر ٹوئٹ کرنے پر پاکستان کا سخت ردِ عمل

جولائی کی گرمی کی شدت سوشل میڈیا پر بھی اس وقت محسوس کی گئی جب اس وقت کے افغان نائب صدر امر اللہ صالح کی ایک متنازع سوشل میڈیا پوسٹ پر پاکستان اور افغانستان کے حکام کے درمیان لفظی نوک جھونک کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔

امر اللہ صالح نے پوسٹ میں پاکستان اور بھارت کے درمیان 1971 کی جنگ کے اختتام پر پاکستان کے جنرل امیر عبد اللہ خان نیازی کی جانب سے سرینڈر کرنے کی تصویر پوسٹ کی تھی۔

افغان نائب صدر نے کہا تھا کہ ہماری تاریخ میں ایسی کوئی تصویر نہیں ہے اور نہ ہی ہو گی۔

امر اللہ صالح کی اس متنازع سوشل میڈیا پوسٹ پر وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے جوابی پوسٹ میں کہا کہ افغانستان آپ جیسے دغا بازوں کا نہیں بلکہ بہادر افغانوں کا ہے۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ آپ جیسے بزدلوں کو افغانستان اور خطے میں امن سے کوئی دلچسپی نہیں۔ وقت آنے پر آپ لوگ سب سے پہلے ملک سے بھاگیں گے۔

اس بحث میں قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے بھی اپنا حصہ ڈالتے ہوئے جوابی ٹویٹ کی تھی۔

3۔ پی آئی اے طیارہ حادثہ؛ 'ہم دینے والے ہاتھ تھے اب لینے والے بن گئے'

پی آئی اے طیارہ سانحے کے ایک سال مکمل ہونے پر وآئس آف امریکہ کی نمائندہ سدرہ ڈار نے دو متاثرہ خاندانوں سے ملاقات کی۔

تیس سالہ نیلم برکت علی کی والدہ نے بتایا کہ وہ جوانی ہی میں بیوہ ہوگئی تھیں اور انہوں نے بڑی محنت سے اپنی دونوں بیٹیوں کو تعلیم دلوائی۔

اسکالرشپ پر برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے والی 30 سالہ نیلم لاہور میں بطور کلینیکل ایمبریولوجسٹ ملازمت کرتی تھیں اور عید پر اپنی والدہ سے ملنے کراچی آ رہی تھیں۔

نیلم کی خاکستر لاش کے ساتھ والدہ الماس بانو نے اپنی تمام امیدیں بھی تہہ خاک کر دیں۔

ادھر زرقا چوہدری کے 80 سالہ والد سلیم اسلم بھی اسی بد قسمت طیارے پر سوار تھے۔

سانحے کے بعد والد کی لاش حاصل کرنے کے لیے زرقا اور ان کے خاندان کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا وہ ایک تکلیف دہ عمل تھا۔ دس دن بعد والد کو سپرد خاک کیا تو دو ہفتے بعد والدہ یہ غم برداشت نہ کر پائیں اور چل بسیں۔

2۔ افغانستان میں پاکستانی طالبان کو نشانہ کون بنا رہا ہے؟

پاکستان کے سرحدی ضلعے خیبر میں فعال کالعدم شدت پسند گروہ 'لشکرِ اسلام' کے سربراہ منگل باغ 28 جنوری کو افغانستان کے صوبے ننگرہار کے ضلعے نازیان میں سڑک کنارے نصب ایک ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں ہلاک ہوئے۔

منگل باغ کی افغانستان میں ہلاکت سے یہ بحث دوبارہ شروع ہو گئی کہ افغانستان میں موجود پاکستان کے شدت پسند گروہوں کے رہنماؤں کی ہلاکتوں کے پیچھے کون ہے؟

پاکستانی طالبان کے امور سے باخبر ایک مذہبی رہنما کے مطابق افغانستان میں ٹی ٹی پی رہنماؤں کی گزشتہ دو برس سے جاری پراسرار ہلاکتوں پر خود ٹی ٹی پی بھی پریشان ہے۔

دہشت گردی کے موضوع پر ماہر عبد الباسط نے رائے دی کہ افغانستان میں پناہ لینے والے پاکستان مخالف طالبان کمانڈروں کے خلاف کارروائیوں کے حوالے سے یوں لگ رہا ہے کہ اسلام آباد، کابل اور واشنگٹن کی انتظامیہ کے مابین کوئی معاہدہ ہوا ہے جب کہ افغان صوبے کنڑ کے ایک قبائلی رہنما فضل محمد کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی طالبان رہنماؤں کی ہلاکتوں کے لیے کسی مقامی مسلح گروہ کا استعمال کیا جا رہا ہے۔

سیکیورٹی ماہرین کے مطابق جو بھی افغانستان میں پاکستان مخالف طالبان رہنماؤں کو مار رہا ہے اور اس کے جو بھی اسباب ہوں، پاکستان کی مجموعی سیکیورٹی صورتِ حال پر ان کے مثبت اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

1۔ اسد طور پر حملہ کرنے والے ایک شخص کی شناخت

اس سال وائس آف امریکہ پر جس خبر میں آپ نے سب سے زیادہ دلچسپی دکھائی وہ پاکستانی صحافی اسد طور پر حملے اور ان کے حملہ آوروں کی شناخت کے حوالے سے وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید کے نیوز کانفرنس کی تفصیلات تھیں۔

پاکستان میں صحافت کی صورتِ حال پر عوام ہوں، سیاست دان یا پھر خود صحافی ہوں واضح دھڑے بندی نظر آتی ہے۔

حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور ان کے حامی صحافی دوسری جانب کے صحافیوں پر جانب داری اور غداری کے الزامات لگاتے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ ملک میں صحافیوں کو اپنے کام کی مکمل آزادی حاصل ہے۔

دوسری جانب صحافیوں اور سول سوسائٹی کا ایک بڑا حصہ مقتدر حلقوں پر صحافتی آزادی کو سلب کرنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں جن میں صحافیوں کا اغوا، انہیں زدو کوب کیا جانا اور دھمکیاں شامل ہیں۔

اس سال 25 مئی کو حکومت اور مقتدر حلقوں کے ناقد سمجھے جانے والے صحافی اسد علی طور کو تین نامعلوم افراد نے اسلام آباد میں اُن کے فلیٹ میں گھس کر تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔

اسد طور نے اس حملے کا الزام پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی پر لگایا تھا۔ تاہم آئی ایس آئی نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے اسے ادارے کو بدنام کرنے کی سازش قرار دیا تھا۔

جہاں سوشل میڈیا پر ان کی حمایت میں کئی آوازیں بلند ہوئیں، وہیں بہت سے صارفین نے اسد طور کو جھوٹا قرار دیا۔

اس واقعے کے کچھ روز بعد ہی پاکستان کے وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ سیکیورٹی ادارے صحافی اسد علی طور پر حملے میں ملوث ایک ملزم کی شناخت کے بہت قریب ہیں۔

ان کے مطابق حملہ آوروں کو گرفتار کرنا ضروری ہے کیوں کہ ایسے واقعات کے ذریعے حساس اداروں پر خاص مقاصد کے لیے الزام لگایا جا رہا ہے جو قابلِ مذمت ہے۔

تاہم اس واقعے کو سات ماہ سے زائد گزر چکے ہیں لیکن واقعے میں ملوث کسی بھی گرفتار شخص کو سامنے نہیں لایا گیا۔

اسد طور پر تشدد: 'خفیہ اداروں' کی کارروائی یا 'سازش؟'
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:11 0:00

اس واقعے پر احتجاج کے دوران اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرنے والے معروف صحافی حامد میر پر بھی معافی مانگنے کے باوجود مبینہ طور پر غیر اعلانیہ پابندی لگا دی گئی جو 2021 کے ختم ہونے تک قائم ہے۔

انسانی حقوق کی ملکی اور غیر ملکی ادارے بھی پاکستان میں صحافیوں کی صورتحال کو آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔

یہ تھیں سال کی وہ 10 خبریں جو آپ نے ہماری ویب سائٹ پر سب سے زیادہ پڑھیں۔

جاتے جاتے اس خبر کے بارے میں بھی آپ کو بتاتے جائیں جسے وائس آف امریکہ اردو سروس کے فیس بک پیج پر سب سے زیادہ دیکھا گیا۔

وائس آف امریکہ کی نمائندہ سدرہ ڈار نے اپنی ایک رپورٹ میں ایک منفرد پناہ گاہ دکھائی جہاں ان بازوں کو رکھا گیا تھا جن کی غیر قانونی اسمگلنگ کی جانی تھی۔ ان بازوں کی مالیت لگ بھگ 20 کروڑ روپے بتائی گئی تھی۔

پاکستان میں باز کے شکار اور انہیں پکڑنے کی ممانعت ہے تاہم باز تلور کے شکار میں کام آتے ہیں اس لیے ان کی خلیجی ریاستوں میں خاص طلب ہے اور اسمگلرز چور راستوں سے ان کی تجارت کرتے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ جہاں بازوں کے خریداروں کی کمی نہیں، وہیں ان کی تجارت سے مقامی برادری کا بھی روزگار جڑا ہوا ہے۔

حکومت بھی سفارتی تعلقات قائم رکھنے میں باز ڈپلومیسی کی مخالف نہیں ہے البتہ اس کا کوئی قانونی فریم ورک موجود نہیں ہے اس لیے اس کی تجارت غیر قانونی طریقوں سے جاتی ہے۔

سدرہ ڈار کی اس رپورٹ کو فیس بک پر دو کروڑ 30 لاکھ بار دیکھا جا چکا ہے اور 57 ہزار سے زائد بار شیئر کیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG