واشنگٹن —
میری کہانی: ’بس اگر میرے بچوں کو روٹی کے ساتھ کھانے کے لیے دودھ کا ایک پیالہ مل جائے تو تھوڑا سا سالن اور مجھ پر جو ستر ہزار روپے کا قرض ہے وہ ادا ہوجائے، تو میں اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کروں گا‘۔
یہ جواب تھا فلک شیر کا۔ ’وائس آف امریکہ‘ کے پروگرام ’میری کہانی‘ میں، اُن سےیہ پوچھا گیا تھا کہ، کوئی ایسا خواب بتائیں جو آپ کی زندگی کا حاصل ہو۔
فلک شیر کی اس کہانی نے مجھ سمیت ہمارے بہت سے سننے والوں کو رلا دیا تھا۔
لیکن، اب وقت ہے آنسو پونچھ کر مسکرانے کا!
’العباس ایجوکیشن ٹرسٹ ‘ کے بانی غلام عباس بھٹی صاحب ہمارے اِس پروگرام کے مہمان تھے اور اُنھوں نے وعدہ کیا کہ وہ فلک شیر کی اِن خواہشوں کو پورا کردیں گے، اور اُنھوں نے ایسا ہی کیا۔
گذشتہ دِنوں، فلک شیر کو تحفے میں صرف ایک گائے ہی نہیں، بلکہ ایک بچھڑا بھی مل گیا اور ستر ہزار روپے بھی جِن سے اُنھوں نے فوری طور پر اپنا قرض ادا کردیا۔
جب خوشی سے لرزتی آواز کے ساتھ اُنھوں نے فون پر ہمیں یہ اطلاع دی تو اُس وقت وہ سب ملنے والوں کو مٹھائی بانٹ رہے تھے۔ میں نے مذاق میں کہا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سب پیسے مٹھائی میں ختم نہ ہوجائیں۔
لیکن، بینائی سے محروم دس روپے کے عوض ایک من آٹا پیسنے والے اِس محنت کش نے اپنا قرض ادا کردیا ہے اور اُنھیں خوشی ہے کہ اب اُن کے بچے روکھی روٹی نہیں کھا تے بلکہ گائے کے دودھ کے ساتھ روٹی کھاتے ہیں جو اُن کے لیے ایک ایسی نعمت ہے کہ یہ اُن کا ایک ’مکمل دنیا‘ کا خواب تھا۔
فلک شیر کی یہ بھولی بھالی معصوم سی کہانی لاکھوں اور کروڑوں زندگیوں کی کہانی ہے۔ فرق صرف اتنا ہی ہے کہ اُن میں سے زیادہ تر کی زندگیوں میں غلام عباس بھٹی جیسا کوئی شخص نہیں آیا جو اُن کا خواب پورا کرسکے۔
ایک ایسا شخص جِس نے اپنی زندگی کا آغازہی محنت مزدوری سے کیا، جو بھوک اور مصائب سے واقف ہے اور ساتھ ہی رزق ِحلال کےحصول کی خوشی سے بھی۔۔۔اپنی طالب علمی کے زمانے میں چلتے چلتے گھاس کے کسی ٹکڑے پر کھڑے ہو کر اپنے پیروں کو ٹھنڈا کرتا تھا اور پھر تیز دھوپ کا سفر شروع کرتا تھا۔۔۔ اور، پھر اللہ تعالیٰ نے اِس طرح نوازا کہ اب وہ نہ صرف سینکڑوں ضرورت مند طالب علموں کو علم کی دولت دے رہا ہے، بلکہ بہت سے گھرانوں کا چولہا جلانے کی ذمہ داری بھی اُن کی ہے۔ لیکن، اُن کا ایک عزم ہے ’بھیک نہیں، بلکہ ایسی امداد جو روزگار کا وسیلہ بنے‘ اور اِسی لیے زیادہ تر وہ فلک شیر جیسے لوگوں کو رکشا خرید کر دیتے ہیں۔۔۔ لیکن، چونکہ، فلک شیر بینائی سے محروم ہیں اِس لیے عباس صاحب کے خیال میں اُنھیں گائے کا دودھ صرف گھر میں ہی نہیں استعمال کرنا چاہیئے بلکہ اسے روزگار کے حصول کا ذریعہ بنانا چاہیئے۔
جمعرات 22نومبر کو جب امریکہ بھر میں ’یومِ شکرانہ‘ منایا جارہا ہے، ہم ’میری کہانی‘ میں آپ کو ملائیں گے ایک بار پھر فلک شیر اور غلام عباس بھٹی صاحبان سے ۔۔۔آنسوؤں کے نہیں بلکہ مسکراہٹوں کے ساتھ۔
یہ جواب تھا فلک شیر کا۔ ’وائس آف امریکہ‘ کے پروگرام ’میری کہانی‘ میں، اُن سےیہ پوچھا گیا تھا کہ، کوئی ایسا خواب بتائیں جو آپ کی زندگی کا حاصل ہو۔
فلک شیر کی اس کہانی نے مجھ سمیت ہمارے بہت سے سننے والوں کو رلا دیا تھا۔
لیکن، اب وقت ہے آنسو پونچھ کر مسکرانے کا!
’العباس ایجوکیشن ٹرسٹ ‘ کے بانی غلام عباس بھٹی صاحب ہمارے اِس پروگرام کے مہمان تھے اور اُنھوں نے وعدہ کیا کہ وہ فلک شیر کی اِن خواہشوں کو پورا کردیں گے، اور اُنھوں نے ایسا ہی کیا۔
گذشتہ دِنوں، فلک شیر کو تحفے میں صرف ایک گائے ہی نہیں، بلکہ ایک بچھڑا بھی مل گیا اور ستر ہزار روپے بھی جِن سے اُنھوں نے فوری طور پر اپنا قرض ادا کردیا۔
جب خوشی سے لرزتی آواز کے ساتھ اُنھوں نے فون پر ہمیں یہ اطلاع دی تو اُس وقت وہ سب ملنے والوں کو مٹھائی بانٹ رہے تھے۔ میں نے مذاق میں کہا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سب پیسے مٹھائی میں ختم نہ ہوجائیں۔
لیکن، بینائی سے محروم دس روپے کے عوض ایک من آٹا پیسنے والے اِس محنت کش نے اپنا قرض ادا کردیا ہے اور اُنھیں خوشی ہے کہ اب اُن کے بچے روکھی روٹی نہیں کھا تے بلکہ گائے کے دودھ کے ساتھ روٹی کھاتے ہیں جو اُن کے لیے ایک ایسی نعمت ہے کہ یہ اُن کا ایک ’مکمل دنیا‘ کا خواب تھا۔
فلک شیر کی یہ بھولی بھالی معصوم سی کہانی لاکھوں اور کروڑوں زندگیوں کی کہانی ہے۔ فرق صرف اتنا ہی ہے کہ اُن میں سے زیادہ تر کی زندگیوں میں غلام عباس بھٹی جیسا کوئی شخص نہیں آیا جو اُن کا خواب پورا کرسکے۔
ایک ایسا شخص جِس نے اپنی زندگی کا آغازہی محنت مزدوری سے کیا، جو بھوک اور مصائب سے واقف ہے اور ساتھ ہی رزق ِحلال کےحصول کی خوشی سے بھی۔۔۔اپنی طالب علمی کے زمانے میں چلتے چلتے گھاس کے کسی ٹکڑے پر کھڑے ہو کر اپنے پیروں کو ٹھنڈا کرتا تھا اور پھر تیز دھوپ کا سفر شروع کرتا تھا۔۔۔ اور، پھر اللہ تعالیٰ نے اِس طرح نوازا کہ اب وہ نہ صرف سینکڑوں ضرورت مند طالب علموں کو علم کی دولت دے رہا ہے، بلکہ بہت سے گھرانوں کا چولہا جلانے کی ذمہ داری بھی اُن کی ہے۔ لیکن، اُن کا ایک عزم ہے ’بھیک نہیں، بلکہ ایسی امداد جو روزگار کا وسیلہ بنے‘ اور اِسی لیے زیادہ تر وہ فلک شیر جیسے لوگوں کو رکشا خرید کر دیتے ہیں۔۔۔ لیکن، چونکہ، فلک شیر بینائی سے محروم ہیں اِس لیے عباس صاحب کے خیال میں اُنھیں گائے کا دودھ صرف گھر میں ہی نہیں استعمال کرنا چاہیئے بلکہ اسے روزگار کے حصول کا ذریعہ بنانا چاہیئے۔
جمعرات 22نومبر کو جب امریکہ بھر میں ’یومِ شکرانہ‘ منایا جارہا ہے، ہم ’میری کہانی‘ میں آپ کو ملائیں گے ایک بار پھر فلک شیر اور غلام عباس بھٹی صاحبان سے ۔۔۔آنسوؤں کے نہیں بلکہ مسکراہٹوں کے ساتھ۔