وینزویلا کے مسائل میں گھرے ہوئے لیڈر، نکولس مدورو نے یورپی یونین کے اس الٹی میٹم کو مستر د کر دیا ہے جس میں ان کے ملک میں نئے انتخابات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اتوار کو ٹیلی وژن پر نشر کیے گئے ایک انٹر ویو میں انہوں نے کہا کہ حزب اختلاف کے لیڈر وین گواڈو نے اپنے لیے عبوری صدر کا دعویٰ کر کے آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔ لیکن وہ حزب اختلاف کے ساتھ گفت وشنید کےلیے رضامند ہو گئے ہیں۔
سی این این ترکی کو ایک انٹرویو میں جو اتوار کو نشر ہوا، مدورو نے کہا کہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ اور عدالتی عہدے دار یہ تعین کریں گے کہ آیا گواڈو نے وینزویلا کے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے یا نہیں۔ انہوں نے یورپی یونین کے اس مطالبے کو مسترد کر دیا کہ وہ کوئی نیا اور جمہوری الیکشن کرائیں، ورنہ یورپ گواڈو کو وینزویلا کے عبوری صدر کے طور پر تسلیم کر لے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ وینزویلا اپنے راستے پر چلتا رہے گا۔ خوش قسمتی سے ہم یورپ پر انحصار نہیں کرتے۔ اور وہ خود پسند، متکبرانہ رویے، ہمیں اس لیے حقارت سے دیکھنا کیوں کہ ہم ان سے کم تر ہیں۔ وہ رویے جو یورپی اشرافیہ کا خاصا ہے، وہ یورپی اشرافیہ، یورپی لوگوں کی نمائندگی نہیں کرتی۔ یورپ کے لیڈر خوشامدی ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کے آگے گھٹنے ٹیکے ہوئے ہیں، اور پورا یورپ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے گھٹنے ٹیکے ہوئے ہے۔ یہ بالکل سادہ سی بات ہے، خاص طور پر وینزویلا کے معاملے میں۔
صدر مدورو نے ایک ایسے انتخاب کے بعد جسے بڑے پیمانے پر جعل سازی پر مبنی سمجھا گیا ہے، اس ماہ کے شروع میں اپنے عہدے کی دوسری مدت کے لیے حلف اٹھایا تھا۔ امریکہ اور خطے کے بیشتر ملکوں کے ساتھ ساتھ اسرائیل نے گواڈو کو اس وقت تک کے لیےعبوری صدر کے طور پر تسلیم کر لیا ہے جب تک جمہوری طریقے سے ہونے والی ووٹنگ کے ذریعے کوئی نیا صدر منتخب نہیں ہو جاتا۔ مدورو نے واشنگٹن کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر لیے ہیں اور امریکی سفارت کاروں کو ملک سے رخصت ہو جانے کا حکم دے دیا تھا، لیکن بعد میں اس حکم پر نظر ثانی کر لی۔
ان کا کہنا تھا کہ میں مسٹر ٹرمپ کو بہت سے پیغامات بھیج چکا ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ وہ اندرون ملک مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ اور میرا خیال ہے کہ وہ ہمیں کمتر سمجھتے ہیں۔
امریکہ مدورو کو انتباہ کر چکا ہے کہ وہ حزب اختلاف کو دبانے کے لیے طاقت کا استعمال نہ کریں اور نہ ہی وہ امریکی سفارتی عملے پر چڑھائی کریں۔ روس امریکہ پر وینزویلا میں بد امنی کو ہوا دینے کا الزام عائد کر چکا ہے۔
اقوام متحدہ میں روس کے مستقل مندوب ویسلی نبنزا کا کہنا تھا کہ امریکہ مدورو حکومت اور وینزویلا کے لوگوں کے درمیان کسی محاذ آرائی کی تصویر پیش کر رہا ہے۔ یہ تصویر حقیقت سے دور ہے۔ ہر چیز کے باوجود وینزویلا کے لیڈر کو واضح طور پر لوگوں میں وسیع پیمانے پر حمایت حاصل ہے۔
امریکہ نے سیاسی بحران کے ایک حل کے طور پر مذاكرات پر زور دیا ہے لیکن وینزویلا کے لوگ اس پر اختلاف رائے کا شکار ہیں۔ سپر مارکیٹ کے ایک کارکن ایڈرین الواریزکا کہنا ہے کہ وینزویلا کے ایک شہر ی کے طور پر میرا خیال ہےکہ ہمیں تشدد کا راستہ نہیں اپنانا چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ کوئی گفت و شنید ہی ہمیں، وینزویلا کے شہریوں کے طور پر ایک معاشرے کے طور پر اور ایک ملک کے طور پر، جو ہم ہیں، ہمیں آگے بڑھنے میں مدد کرے گی۔
ایک وکیل ہوزے گریگوریو کیسٹیلو کہتے ہیں کہ پہلی بات تو یہ کہ مذاكرات کتنی بار ہو چکے ہیں اور حکومت نے یا جسے حکومت کہا جاتا ہے، مذاكرات کا احترام نہیں کیا ہے۔ کیا ہم دوبارہ وہی کچھ کرنے جا رہے ہیں، نہیں یہاں، مذاكرات کا کوئی امکان نہیں ہے۔
مدورو کو وینزویلا کی فوج کی حمایت حاصل ہے لیکن واشنگٹن میں ان کے ملٹری اتاشی نے ہفتے کے روز وینزویلا کی مسلح فورس کے ارکان پر زور دیا کہ وہ گواڈو کو جائز عبوری صدر کے طور پر تسلیم کر لیں۔