امریکی وزیر دفاع ایشٹن کارٹر نے کہا ہے کہ ایسے میں جب داعش کے شدت پسندوں کے ساتھ لڑائی جاری ہے، دفاعی اہل کار اِس بات پر غور کر رہے ہیں کہ عراق میں حکومت کی حامی افواج کی تربیت اور اسلحے کی فراہمی کی کوششوں میں کس طریقے سے مدد دی جا سکتی ہے۔
اُنھوں نے یہ بات ایشیا کے دورے میں اُن کے ہمراہ سفر کرنے والے نامہ نگاروں سے گفتگو میں کہی۔
کارٹر نے کہا کہ عراق میں سامنے آنے والے حالیہ واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ زمین پر ایک باصلاحیت پارٹنر کی اشد ضرورت ہے، جِن واقعات میں داعش کے شدت پسندوں کے ہاتھوں بغداد کے مغرب میں واقع صوبہٴ انبار کے وسیع و اریض دارالحکومت کا چھینا جانا شامل ہے۔
اگست سے امریکہ عراق میں فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ تاہم، اب تک وہ زمین پر اپنی فوج تعینات کرنے کے معاملے کو خارج از امکان قرار دیتا آیا ہے۔
رمادی پر شدت پسندوں کے قبضے کے بعد، کارٹر نے عراقی سرکاری فوجوں کے پیشہ وارانہ ’عزم‘ پر سوال اٹھائے؛ جس پر وائٹ ہاؤٴس نے داعش کے خلاف جاری عراقی مشن کی حمایت میں امریکہ کی جانب سے حمایت کا اعادہ کرنا پڑا۔
وزیر دفاع نے جمعرات کو کہا کہ تربیت کا کام تیز کرکے اور میدانِ جنگ میں اسلحہ پہنچانے سے نہ صرف عراقی افواج کی کارروائی کرنے کی استعداد بڑھے گی، بلکہ اس کے علاوہ اُن کے اعتماد میں بھی اضافہ ہوگا۔
اُنھوں نے کہا کہ یہ بھی کوشش کی جانی چاہیئے کہ لڑائی میں سنی لڑاکوں کو شامل کیا جائے۔
بقول اُن کے، ’میرے خیال میں، جو بات خصوصی اہمیت کی حامل ہے وہ یہ ہے کہ لڑائی میں سنی قبائل کو شریک کیا جائے۔ اس کا مطلب تربیت دینا اور اُنھیں مسلح کرنا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان، جوش ارنیسٹ نے بدھ کے روز کہا کہ امریکہ کا خیال ہے کہ رمادی میں لڑائی کی کامیابی کے لیے تمام فرقوں پر مشتمل فورس درکار ہے۔
بقول اُن کے، ’اِس کی وجہ یہ ہے کہ عراق مختلف اعتقاد کے حامل لوگوں کا ملک ہے اور اِس خاص خطرے سے نمٹنے کے لیے تمام مختلف الخیال افراد و عناصر کی حمایت درکار ہے۔ اور یہ کہ دولت اسلامیہ سے لڑنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام فرقوں پر مشتمل فورس تشکیل دی جائے۔ اور یہ کافی نہ ہوگا کہ داعش کو ملک سے دور دھکیلا جائے، بلکہ اُس کے خلاف مستحکم طور پر صف آرا ہونے کی ضرورت ہے‘۔