امریکی خاتون اول جل بائیڈن نے اس سال کی ایوارڈ یافتہ جرأت مند بین الاقوامی خواتین کی حوصلہ افزائی کے لیے انہیں وائٹ ہاؤس میں مدعو کیا۔ خواتین کے عالمی دن کے موقع پرمنعقدہ ایوارڈز کی تقریب کے لیے بدھ کے روز تمام 11 اعزازی شخصیات وائٹ ہاؤس کی مہمان خصوصی تھیں۔
جل بائیڈن نے بدھ کو امریکی وزیر خارجہ کے سالانہ ایوارڈ کے لیے جمع ہونے والے مہمانوں اور اعزازیافتہ خواتین سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہرجگہ لڑکیوں کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ وہاں خواتین ان کے لیے لڑ رہی ہیں اورجیت رہی ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ ہم یہاں ان کے بھائیوں، باپوں، شوہروں اوردوستوں سے یہ کہنے کے لیےموجود ہیں کہ ہمیں ان خواتین کی ضرورت ہے جو بولنے کے لیے تیار ہوں، ہمیں مزید ایسے مردوں کی ضرورت ہے جوسننے اورعمل کرنے کے لیے تیار ہوں‘‘۔
اس سال پہلی مرتبہ اس ایوارڈ سے ایک ایسے گروپ کو بھی نوازا گیا جس میں ایران کے احتجاجی مظاہروں میں شریک لڑکیوں اور خواتین کو میڈلین آلبرائٹ آنریری گروپ ایوارڈ کے افتتاحی وصول کنندگان کے طورپرنامزد کیا گیا۔
گزشتہ سال ستمبرمیں ایران میں کرد نژاد 22 سالہ مہسا امینی کی پولیس حراست میں موت کے بعد ملک کے 31 صوبوں میں لاتعداد خواتین اورلڑکیوں نے احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی۔
اقوام متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے بدھ کے روزایوارڈ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کی قیادت میں ایرانی عوام پرامن احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکلے، محلوں اورکلاس رومز کے ذریعے، اپارٹمنٹ کی عمارتوں اور کاروں کی کھڑکیوں سے باہر، مظاہرین نے پورے ایران اور دنیا بھرمیں اپنی آواز بلند کی، جس سے صنفی مساوات اور انسانی حقوق کا مطالبہ کرنے والا عالمی پروگرام بنایا گیا۔ ایران کی تمام خواتین اورلڑکیاں یہ جان لیں، ہم خواتین، زندگی اور آزادی کے لیے آپ کی لڑائی میں آپ کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔
ایوارڈ حاصل کرنے والوں میں گیارہ خواتین شریک تھیں، جن میں صحافی، کارکن، ماہرین تعلیم، وکلاء اورایک بریگیڈیئرجنرل کوانصاف اورمساوات کی تلاش میں برطرفیوں، دھمکیوں، گرفتاریوں اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
ایرانی مظاہرین کی جرات کا اعتراف
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری کیرین یاں پیئر نےآزادی اظہار کے دفاع کے لیے منتخب کی گئی چارخواتین کا تعارف کرایا اور کہا کہ ایران کے مظاہرین کے حوصلے اور ہمّت کا اعتراف بہت با معنی ہے۔
وی او اے کے ایک سوال کےجواب میں یاں پیئر نے کہا، ’’ہم یہاں وائٹ ہاؤس میں جوکر رہے ہیں، وہ ہمارے خیال میں دنیا بھر کی خواتین کے لیے ناقابل یقین حد تک اہم ہے‘‘۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس اعتراف سے ظاہر ہوتا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ ایران کو اسی معیار پر رکھتی ہے جس پر باقی دنیا کو رکھا جاتا ہے۔
سینٹرفاراسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز میں انسانی حقوق کی محقق مارٹی فلیکس نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس کا امکان نہیں ہے کہ اس ایوارڈ سے تہران میں اقتدار میں موجود لوگ متاثر ہوں گے کیونکہ ملک کی سپریم کونسل کے تقریباً سبھی ارکان مرد ہیں۔
فلیکس نے کہا کہ وہ اپنے چیلنجوں اور ملک پر حکومت کے سلسلے میں امریکہ یا مغرب کو موردِ الزام ٹہرانے کا کوئی بھی موقع تلاش کر لیں گے۔
انہوں نے کہا،"جو کوئی بھی ایران کی صورتِ حال پر نظر رکھے ہوئے ہے، اس پر عیاں ہے کہ وہاں تحریک ملک کے اندر سے شروع ہوئی ہے اور میرا خیال ہے کہ اس میں امریکہ کو نتھی کرنے کی ایرانی حکومت کی کوششوں پر کوئی توجہ نہیں دے گا۔"’’
(وی او اے نیوز)