امریکہ نے یہ کہتے ہوئے وسط مدتی جوہری معاہدے کو خیر باد کہہ دیا ہے کہ روس نے اس معاہدے کی خلاف ورزی میں پہل کی تھی، جب کہ روس کا کہنا ہے کہ اب وہ بھی اس معاہدے سے دست بردار ہو رہا ہے۔
واضح رہے کہ یہ معاہدہ صدر ریگن کے دور میں ہوا تھا۔ یہ سرد جنگ کا زمانہ تھا اور امریکہ اور روس نے یورپ میں ایک دوسرے کے خلاف لگ بھگ 70 ہزار جوہری ہتھیار نصب کر رکھے تھے۔
جوہری سائنس دان ڈاکٹر عبدالحمید نیر کہتے ہیں کہ یہ ایک اچھا معاہدہ تھا۔ لیکن، ان کے بقول، صدر اوباما کے اقتدار میں بھی امریکی محکمہ دفاع میں ایسے عناصر موجود تھے جو امریکہ کی جوہری برتری قائم رکھنے کے لیے اس معاہدے کو ختم کرنے کے حق میں تھے۔
ان کا خیال تھا کہ اس معاہدے کو چھوڑنے کے بعد امریکہ اور روس کے درمیان ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو سکتی ہے، جس کی وجہ سے امریکہ کی دفاعی صنعتوں کو زیادہ منافع کمانے کا موقع ملے گا۔
ری پبلیکن پارٹی کے ایک حامی، عدیل شاہ اس نظریے سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسلحے کی دوڑ شروع ہونے سے امریکی معیشت کو بڑا فائدہ ہو گا۔ جب کہ، ان کے بقول، روس کو سوچنا پڑے گا کہ امریکہ کے مقابلے میں کم مالی وسائل رکھنے والے ایک ملک کے طور پر کیا وہ ہتھیاروں کی اس دوڑ کا متحمل ہو سکے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر روس ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل ہونے کی کوشش کرتا ہے تو اس سے یورپ میں خطرے کی گھنٹی بجنے لگے گی، جس کے نتیجے میں یورپی ملک امریکہ سے نیٹو کی چھتری کی مدد مانگیں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ دونوں صورتوں میں امریکہ کو ہی فائدہ ہو گا۔