واشنگٹن —
امریکہ کی سپریم کورٹ ان دنوں 1960 کی دہائی کے ایک اہم قانون کا جائزہ لے رہی ہے جس کے ذریعے اقلیتوں کو ووٹ ڈالنے کے حق کو استعمال کرنے میں مدد ملی۔
امریکی کانگریس نے 1965 کا ‘ووٹنگ رائٹس ایکٹ’ ایسے وقت میں منظور کیا تھا جب امریکہ کی جنوبی ریاستوں میں شہری حقوق کی جنگ لڑی جا رہی تھی۔ ان ریاستوں میں نسلی امتیاز عام تھا ۔ یہ وہ دور تھا جب یہ بات سب کے علم میں تھی کہ مقامی سرکاری عہدے دار پوری کوشش کرتے ہیں کہ افریقی امریکی ووٹ نہ ڈالنے پائیں۔
اس قانون کی ایک اہم شق وہ ہے جسے سیکشن پانچ کہتے ہیں۔ اس کے تحت وفاقی حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ ان علاقوں میں جہاں افریقی امریکیوں کو تاریخی طور پر ووٹ ڈالنے میں بے اندازہ دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، وہ ووٹنگ کے ضابطوں اور طریقۂ کار میں ریاستوں اور مقامی حکومتوں کی مجوزہ تبدیلیوں کو منظور کرے یا انہیں مسترد کر دے۔
آئین کے تحت جہاں تک انتخابات کے انتظامات کا تعلق ہے، بیشتر اختیارات ریاستوں کے پاس ہیں۔
امریکی کانگریس نے اس قانون کی کئی بار تجدید کی ہے۔ آخری بار یہ تجدید 2006 میں کی گئی تھی۔ لیکن اب بعض قدامت پسند گروپوں اور اس قانون سے متاثر ہونے والی ریاستوں کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ یہ قانون اب فرسودہ ہو چکا ہے اور غیر ضروری ہے۔
بُیچ ایلس ریاست الاباما کی شیلبے کاؤنٹی کے اٹارنی ہیں جس نے ‘ووٹنگ رائٹس ایکٹ’ کی ایک اہم شق کو چیلنج کیا ہے۔
ہائی کورٹ کے باہر انھوں نے رپورٹروں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ‘‘گذشتہ 48 برسوں میں زبردست ترقی ہوئی ہے ۔ میں 1964 سے کاؤنٹی کا اٹارنی ہوں۔ جب ہم اس قانون کے سیکشن پانچ کے تحت آئے، اس وقت میری عمر 24 سال تھی ۔ اب میں 73 سال کا ہو چکا ہوں، اور ہم اب بھی اسی فارمولے کے تحت کام کر رہے ہیں جس کا اطلاق ہم پر بہت برسوں سے نہیں ہوا ہے۔’’
بدھ کے روز زبانی دلائل کے دوران سپریم کورٹ کے بعض زیادہ قدامت پسند ججوں کے رویے سے ایسا ظاہر ہوا کہ انہیں اس قانون کی ضرورت کے بارے میں شبہات ہیں۔ انہیں یقین نہیں ہے کہ کانگریس اس مسئلے کے جس حل پر 1965 میں متفق ہوئی تھی، اس کی ضرورت اب پچاس برس کے بعد بھی باقی ہے۔
ووٹنگ رائٹس ایکٹ شہری حقوق کی اس خونریز جدو جہد کی پیداوار تھا جو امریکہ کے جنوب میں 1950 کی دہائی کے آخر میں اور 1960 کی دہائی کے شروع میں لڑی گئی۔
ہائی کورٹ کے سامنے زبانی دلائل میں شہری حقوق کے گروپوں اور اوباما انتظامیہ نے اس قانون کا دفاع کیا۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ اس قانون کے تحت جو ریاستیں آتی ہیں، ان میں گذشتہ کئی عشروں میں نسلی تعلقات میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔
لیکن ان کی دلیل یہ تھی کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ریاستیں اور مقامی حکومتیں تمام امریکیوں کے ووٹ ڈالنے کے حق کی حفاظت کریں چاہے ان کی نسل کچھ ہی کیوں نہ ہو، یہ قانون اب بھی موثر ہے۔
ریاست جارجیا کے ڈیموکریٹک کانگریس مین جان لیوئس 1965 میں ریاست الاباما میں ووٹ ڈالنے کے حق کے لیے مارچ کر رہے تھے جب ان کی بری طرح پٹائی کی گئی۔
انھوں نے سپریم کورٹ کے سامنے بیان دیتے ہوئے کہا کہ ‘‘اس دور کے مقابلے میں ہم بہت آگے نکل گئے ہیں اور اس کی بڑی وجہ ووٹنگ رائٹس ایکٹ ہے ۔ بعض لوگ اس طرف توجہ دلاتے ہیں کہ اب کانگریس میں اقلیتیں موجود ہیں، اور اب ہمارے صدر افریقی امریکی ہیں۔ لیکن ہم اب تک اپنی منزل پر نہیں پہنچے ہیں!۔’’
قانونی تجزیہ کار کہتےہیں کہ ووٹنگ رائٹس ایکٹ کا شمار 1960 کی دہائی کے شہری حقوق کے انتہائی اہم قوانین میں ہوتا ہے۔
ڈیوڈ سیوج اخبار لاس انجلیس ٹائمز کے لیے سپریم کورٹ کو کور کرتےہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘‘امریکی تاریخ میں یہ قانون انتہائی اہم تھا ۔ ہر کوئی یہ بات مانتا ہے، وہ لوگ بھی جو آج اس پر تنقید کر رہے ہیں کہ ووٹنگ رائٹس ایکٹ امریکہ کی تاریخ میں شہری حقوق کا ایک عظیم قانون تھا کیوں کہ اس کی بدولت یہ ممکن ہوا کہ اقلیتیں ووٹ کے لیے خود کو رجسٹر کرا سکیں اور اپنے ووٹ ڈال سکیں۔’’
ڈیوڈ کہتے ہیں کہ کہ سپریم کورٹ کو اب یہ طے کرنا ہے کہ کیا اتنی پیش رفت ہو چکی ہے کہ اس قانون کی ایک اہم شق اب ضروری نہیں رہی ۔
‘‘اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ قانون فرسودہ ہو چکا ہے؟ کیا یہ اپنی افادیت کھو چکا ہے؟ میرے خیال میں عدالت کے قدامت پسند ارکان کا رجحان یہ ہوگا کہ یہ ایک اچھا قانون تھا، لیکن اب بہت وقت گذر چکا ہے، اور اب آپ جنوب کی ریاستوں کو عدالتوں کی خصوصی جانچ کے تحت نہیں رکھ سکتے۔’’
قانونی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ اس سال جن کیسوں کو نمٹائے گی، ان میں ووٹنگ کے حقوق کا یہ قانون بہت اہم ہوگا ۔ توقع ہے کہ عدالت جون کا مہینہ ختم ہونے سے پہلے اس کیس پر اپنا فیصلہ سنا دے گی۔
امریکی کانگریس نے 1965 کا ‘ووٹنگ رائٹس ایکٹ’ ایسے وقت میں منظور کیا تھا جب امریکہ کی جنوبی ریاستوں میں شہری حقوق کی جنگ لڑی جا رہی تھی۔ ان ریاستوں میں نسلی امتیاز عام تھا ۔ یہ وہ دور تھا جب یہ بات سب کے علم میں تھی کہ مقامی سرکاری عہدے دار پوری کوشش کرتے ہیں کہ افریقی امریکی ووٹ نہ ڈالنے پائیں۔
اس قانون کی ایک اہم شق وہ ہے جسے سیکشن پانچ کہتے ہیں۔ اس کے تحت وفاقی حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ ان علاقوں میں جہاں افریقی امریکیوں کو تاریخی طور پر ووٹ ڈالنے میں بے اندازہ دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، وہ ووٹنگ کے ضابطوں اور طریقۂ کار میں ریاستوں اور مقامی حکومتوں کی مجوزہ تبدیلیوں کو منظور کرے یا انہیں مسترد کر دے۔
آئین کے تحت جہاں تک انتخابات کے انتظامات کا تعلق ہے، بیشتر اختیارات ریاستوں کے پاس ہیں۔
امریکی کانگریس نے اس قانون کی کئی بار تجدید کی ہے۔ آخری بار یہ تجدید 2006 میں کی گئی تھی۔ لیکن اب بعض قدامت پسند گروپوں اور اس قانون سے متاثر ہونے والی ریاستوں کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ یہ قانون اب فرسودہ ہو چکا ہے اور غیر ضروری ہے۔
بُیچ ایلس ریاست الاباما کی شیلبے کاؤنٹی کے اٹارنی ہیں جس نے ‘ووٹنگ رائٹس ایکٹ’ کی ایک اہم شق کو چیلنج کیا ہے۔
ہائی کورٹ کے باہر انھوں نے رپورٹروں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ‘‘گذشتہ 48 برسوں میں زبردست ترقی ہوئی ہے ۔ میں 1964 سے کاؤنٹی کا اٹارنی ہوں۔ جب ہم اس قانون کے سیکشن پانچ کے تحت آئے، اس وقت میری عمر 24 سال تھی ۔ اب میں 73 سال کا ہو چکا ہوں، اور ہم اب بھی اسی فارمولے کے تحت کام کر رہے ہیں جس کا اطلاق ہم پر بہت برسوں سے نہیں ہوا ہے۔’’
بدھ کے روز زبانی دلائل کے دوران سپریم کورٹ کے بعض زیادہ قدامت پسند ججوں کے رویے سے ایسا ظاہر ہوا کہ انہیں اس قانون کی ضرورت کے بارے میں شبہات ہیں۔ انہیں یقین نہیں ہے کہ کانگریس اس مسئلے کے جس حل پر 1965 میں متفق ہوئی تھی، اس کی ضرورت اب پچاس برس کے بعد بھی باقی ہے۔
ووٹنگ رائٹس ایکٹ شہری حقوق کی اس خونریز جدو جہد کی پیداوار تھا جو امریکہ کے جنوب میں 1950 کی دہائی کے آخر میں اور 1960 کی دہائی کے شروع میں لڑی گئی۔
ہائی کورٹ کے سامنے زبانی دلائل میں شہری حقوق کے گروپوں اور اوباما انتظامیہ نے اس قانون کا دفاع کیا۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ اس قانون کے تحت جو ریاستیں آتی ہیں، ان میں گذشتہ کئی عشروں میں نسلی تعلقات میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔
لیکن ان کی دلیل یہ تھی کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ریاستیں اور مقامی حکومتیں تمام امریکیوں کے ووٹ ڈالنے کے حق کی حفاظت کریں چاہے ان کی نسل کچھ ہی کیوں نہ ہو، یہ قانون اب بھی موثر ہے۔
ریاست جارجیا کے ڈیموکریٹک کانگریس مین جان لیوئس 1965 میں ریاست الاباما میں ووٹ ڈالنے کے حق کے لیے مارچ کر رہے تھے جب ان کی بری طرح پٹائی کی گئی۔
انھوں نے سپریم کورٹ کے سامنے بیان دیتے ہوئے کہا کہ ‘‘اس دور کے مقابلے میں ہم بہت آگے نکل گئے ہیں اور اس کی بڑی وجہ ووٹنگ رائٹس ایکٹ ہے ۔ بعض لوگ اس طرف توجہ دلاتے ہیں کہ اب کانگریس میں اقلیتیں موجود ہیں، اور اب ہمارے صدر افریقی امریکی ہیں۔ لیکن ہم اب تک اپنی منزل پر نہیں پہنچے ہیں!۔’’
قانونی تجزیہ کار کہتےہیں کہ ووٹنگ رائٹس ایکٹ کا شمار 1960 کی دہائی کے شہری حقوق کے انتہائی اہم قوانین میں ہوتا ہے۔
ڈیوڈ سیوج اخبار لاس انجلیس ٹائمز کے لیے سپریم کورٹ کو کور کرتےہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘‘امریکی تاریخ میں یہ قانون انتہائی اہم تھا ۔ ہر کوئی یہ بات مانتا ہے، وہ لوگ بھی جو آج اس پر تنقید کر رہے ہیں کہ ووٹنگ رائٹس ایکٹ امریکہ کی تاریخ میں شہری حقوق کا ایک عظیم قانون تھا کیوں کہ اس کی بدولت یہ ممکن ہوا کہ اقلیتیں ووٹ کے لیے خود کو رجسٹر کرا سکیں اور اپنے ووٹ ڈال سکیں۔’’
ڈیوڈ کہتے ہیں کہ کہ سپریم کورٹ کو اب یہ طے کرنا ہے کہ کیا اتنی پیش رفت ہو چکی ہے کہ اس قانون کی ایک اہم شق اب ضروری نہیں رہی ۔
‘‘اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ قانون فرسودہ ہو چکا ہے؟ کیا یہ اپنی افادیت کھو چکا ہے؟ میرے خیال میں عدالت کے قدامت پسند ارکان کا رجحان یہ ہوگا کہ یہ ایک اچھا قانون تھا، لیکن اب بہت وقت گذر چکا ہے، اور اب آپ جنوب کی ریاستوں کو عدالتوں کی خصوصی جانچ کے تحت نہیں رکھ سکتے۔’’
قانونی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ اس سال جن کیسوں کو نمٹائے گی، ان میں ووٹنگ کے حقوق کا یہ قانون بہت اہم ہوگا ۔ توقع ہے کہ عدالت جون کا مہینہ ختم ہونے سے پہلے اس کیس پر اپنا فیصلہ سنا دے گی۔