پاکستان نے امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ افغان پناہ گزینوں کی اپنے وطن واپسی کے لیے حکمتِ عملی وضع کرے۔
سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق ریاستی اور سرحدی امور کے وزیر عبدالقادر بلوچ نے اسلام آباد میں نائب امریکی وزیرِ خارجہ برائے پناہ گزین نینسی ایزو جیکسن سے ملاقات میں کہا کہ سلامتی اور اقتصادی صورتِ حال کو مدِنظر رکھتے ہوئے امریکہ افغان پناہ گزینوں کی کامیاب وطن واپسی کے لیے حکمتِ عملی وضع کرے۔
ان کے بقول پاکستان کو ان پناہ گزینوں کی وجہ سے متعدد اور پیچیدہ مسائل کا سامنا رہا ہے۔
تقریباً تین دہائیوں سے زائد عرصے سے لاکھوں افغان پناہ گزین پاکستان میں مقیم رہے ہیں اور اب بھی لگ بھگ 20 لاکھ سے زائد افغان باشندے ملک کے مختلف علاقوں میں رہ رہے ہیں۔ حکومت نے ان کے قیام کی مدت 31 جنوری تک بڑھائی تھی جو بدھ کو ختم ہو گئی ہے اور تاحال اس میں کسی توسیع کے بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
عبدالقادر بلوچ نے امریکی نائب وزیر سے مطالبہ کیا کہ وہ افغانستان کے ساتھ مل کر وطن واپسی کے لیے پناہ گزینوں کی حوصلہ افزائی کے لیے کام کریں۔
نینسی جیکسن نے دہائیوں تک افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے پر پاکستان کو سراہتے ہوئے کہا کہ امریکہ اس ضمن میں پاکستان کی حمایت کے عزم پر قائم ہے۔
ان کے بقول اس بارے میں وہ اپنے دورۂ کابل کے دوران افغان حکومت سے بھی بات کریں گی۔
پاکستان حالیہ برسوں میں تواتر سے ان افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی پر زور دیتا آیا ہے جس کی وجہ وہ سلامتی کے خدشات بتاتا ہے۔
پاکستانی عہدیداروں کے بقول دہشت گرد ان پناہ گزینوں کیمپوں کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں اور وہاں سکیورٹی فورسز کے لیے کارروائی کرنا کسی طور بھی مناسب نہیں۔
قبل ازیں حکومت پناہ گزینوں کے قیام کی مدت میں مرحلہ وار کم از کم چھ ماہ کی توسیع کرتی رہی لیکن غیر معمولی طور پر اس مرتبہ اس مدت میں صرف ایک ماہ کی مہلت دی گئی۔
پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے راہنماؤں نے اس اعلان کے بعد کہا تھا کہ صرف 30 دن کی توسیع ان کے خیال میں پناہ گزینوں خاص طور پر غیر افغانوں کے ساتھ زیادتی ہے اور اس قلیل وقت میں یہ عمل کسی صورت بھی مکمل نہیں کیا جا سکتا۔