امریکہ نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ افغان سرحد کے قریب جاری فوجی آپریشن کے بعد حقانی نیٹ ورک کو ان کی روایتی آماجگاہوں میں لوٹنے سے روکنے کے اقدامات کرے۔
امریکہ کا ماننا ہے کہ حقانی نیٹ ورک نے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں اپنی پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں اور وہاں سے وہ افغانستان میں امریکی اور اتحادی افواج پر ہلاکت خیز حملے اور ان کی منصوبہ بندی کرتا رہا ہے۔
امریکی شہر کولوراڈو میں سکیورٹی سے متعلق ہونے والے اجلاس میں امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے عہدیدار جیفری ایگرز کا کہنا تھا کہ انھیں معلوم ہے کہ حقانی نیٹ ورک کے لوگ متاثر ہوئے ہیں ’’لیکن انھیں دوبارہ ان علاقوں میں منظم ہونے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیئے۔‘‘
پاکستانی فوج نے گزشتہ ماہ شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف بھرپور فوجی کارروائی شروع کی تھی لیکن امریکی عہدیداروں کی طرف سے یہ بیانات سامنے آتے رہے ہیں کہ اس آپریشن میں حقانی نیٹ ورک کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔
پاکستان کا موقف ہے کہ وہ یہاں شدت پسندوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کر رہا ہے اور رواں ہفتے ہی پاکستانی سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے کہا تھا کہ ’’تمام ‘‘ دہشت گردوں کو خلاف آپریشن ہو رہا ہے۔
خبررساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق کولوراڈو میں سکیورٹی سے متعلق اجلاس میں شریک پاکستان کے امریکہ میں سفیر جلیل عباس جیلانی کا کہنا تھا کہ آپریشن شروع سے متعلق باتیں ہو رہی تھیں اور حقانی نیٹ ورک کے لوگ آپریشن سے پہلے ہی علاقے سے نکل گئے تھے۔
انھوں نے افغانستان پر زور دیا کہ وہ اپنی سرحد پر مزید اقدامات کرے تاکہ فرار ہونے والے عسکریت پسندوں سے نمٹا جا سکے۔
"ہمارے درمیان اچھا تعاون جاری ہے لیکن میں سمجھتا ہوں (آپریشن میں) کامیابی کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔"
افغانستان کے واشنگٹن میں سفیر اکلیل حکیمی بھی اس اجلاس میں موجود تھے اور ان کا کہنا تھا کہ انھیں ملنے والی معلومات کے مطابق حقانی گروپ کے عسکریت پسندوں کو پاکستان میں محفوظ راستہ دیا گیا اور وہ پاکستان میں ہی کسی اور علاقے میں منتقل ہو گئے ہیں۔
تاہم پاکستانی عہدیداروں کی جانب سے ایسے الزامات کی تردید کی جاتی رہی ہے۔
امریکی قانون ساز پاکستان کو متنبہ کر چکے ہیں کہ اگر اس نے حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی نہ کی تو وہ فوجی امداد کی مد میں ملنے والے لاکھوں ڈالرز سے محروم ہو سکتا ہے۔