امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو افغان نژاد زلمے خلیل زاد کو نمائندہٴ خصوصی برائے افغانستان تعینات کر سکتے ہیں، جو کابل میں امریکہ کے سابق سفیر رہ چکے ہیں۔
یہ رپورٹ ’رائٹرز‘ خبر رساں ادارے نے دو امریکی اہلکاروں کے حوالے سے دی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس اقدام سے طالبان کو یہ تازہ اشارہ ملے گا کہ امریکہ اپنی طویل عرصے سے جاری لڑائی کو ختم کرنے سے متعلق بات چیت میں سنجیدہ ہے۔
ری پبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے خارجہ پالیسی کے نامور ماہر، خلیل زاد کو تعینات کرنے کا فیصلہ ایسے وقت ہو رہا ہے جب امریکی فوج کے کمانڈر لڑائی میں تعطل کے معاملے کو تسلیم کر رہے ہیں؛ جس بات پر گذشتہ ماہ کی ملاقات میں امریکی سفارت کاروں اور طالبان اہلکاروں نے غور و خوض کیا آیا مذاکرات کا امکان ہے۔
امریکی انتظامیہ نے سرکاری طور پر اس بات چیت کی تصدیق نہیں کی۔
دو امریکی اہل کار، جنھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر گفتگو کی، کہا ہے کہ اُنھیں نہیں معلوم کہ ایک اعلان کب ہوگا۔ وائٹ ہاؤس اور محکمہٴ خارجہ نےبیان سے احتراز کیا، جب کہ خلیل زاد کے دفتر میں چھوڑے گئے پیغام کا جواب موصول نہیں ہوا۔
امریکی اور بین الاقوامی افواج کے سبک دوش ہونے والے امریکی کمانڈر نے بدھ کے روز واضح کیا کہ شدت پسندی کی تازہ لہر کے باوجود ٹرمپ کی حکمت عملی کا بیان ثابت ہو رہی ہے، جس میں امریکی فوج کے مشیر، تربیت دینے والوں اور خصوصی کارروائیوں پر مامور فوجوں کی تعیناتی پر کوئی قدغن نہیں، ناہی افغان افواج کو بڑھتی ہوئی فضائی حمایت پر کوئی روک ہے۔
نیٹو کی قیادت والے ’رزولوٹ سپورٹ مشن‘ کے کمانڈر، جنرل جان نکلسن نے کہا ہے کہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ حکمت عملی کام کر رہی ہے۔۔۔ مفاہمت کی پیش رفت اہم ہے، جب کہ بالآخر سیاسی تصفئے سے ہی لڑائیوں کا خاتمہ ہوتا ہے‘‘۔
تاہم، ٹرمپ نے 17 برس سے جاری تنازعے سے امریکی افواج کے انخلا کے حوالے سے عدم پیش رفت پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ جون میں ہونے والی جنگ بندی کے دوران پالیسی میں تبدیلی سامنے آئی، امریکہ نے کہا ہے کہ وہ کابل کی حکومت کی قیادت میں طالبان کے ساتھ کسی امن بات چیت کی ’’حمایت، سہولت کاری اور شرکت‘‘ کرے گا۔
طالبان کے حملوں میں تیزی، جن میں گذشتہ ہفتے غزنی کے صوبائی دارالحکومت پر ہونے والا حملہ شامل ہے، جسے ختم کرانے میں امریکی حمایت والی افغان افواج کو چار دِن لگے، اس سے مذاکرات میں اُن کی دلچسپی پر سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
نکلسن نے یہ بات تسلیم کی کہ افغان حکومت نے علاقے پر کنٹرول بڑھانے کے سلسلے میں کوئی خاص پیش رفت نہیں دکھائی۔ ایسے میں جب طالبان نے صدر اشرف غنی کی جانے سے گذشتہ ہفتے جنگ بندی کی پیش کش کا طالبان نے خاطرخواہ جواب نہیں دیا، دو کمانڈروں نے ’رائٹرز‘ کو بتایا ہے کہ باغیوں نے یہ پیش کش مسترد کردی ہے۔
سابق اعلیٰ امریکی اہلکار، جنھوں نے اپنی شناخت ظاہر نہیں کی، اُن کے مطابق، سڑسٹھ برس کے خلیل زاد باغیوں کو قائل کرنے کے مشکل کام کو انجام دینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
خلیل زاد مزار شریف کے شمالی افغان شہر میں پیدا ہوئے اور کئی امریکی سرکاری عہدوں پر فائز رہے۔
بحیثیت صدر جارج ڈبلیو بش کےمشیر، جب 11 ستمبر 2001ء کے القاعدہ کےحملوں کے بعد، جو افغانستان میں موجود تھی، اُن کی مدد سے امریکہ نے افغانستان پر حملے کا منصوبہ تیار کیا۔ اس حملے میں طالبان کو نکال باہر کیا گیا، جن کی اسلامی حکومت نے 1996ء سے ملک پر حکمرانی کی تھی۔
خلیل زاد 2003ء سے 2005ء تک افغانستان میں امریکہ کے سفیر رہے؛ جس دوران اُنہوں نے ملک میں آئین کا مسودہ تیار کرنے میں مدد فراہم کی۔ اس کے بعد وہ عراق میں سفیر رہے، اور پھر اقوام متحدہ میں امریکہ کے ایلچی کے طور پر فرائض انجام دیے۔