امریکہ کی کانگرس نے ایک بل منظور کیا ہے جس میں پاکستان کے اعانتی فنڈ کو افغان طالبان کے دھڑے حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی سے مشروط تو کیا گیا ہے تاہم اس میں کالعدم شدت پسند تنظیم لشکر طبیہ کا ذکر نہیں ہے۔
قبل ازیں یہ تصدیق حقانی نیٹ ورک کے ساتھ ساتھ شدت پسند تنظیم لشکر طیبہ کے خلاف کارروائی سے بھی مشروط تھی جس کے بارے میں نئی دہلی کا دعویٰ ہے یہ گرو پ بھارت میں ہونے والی بعض عسکری کارروائیوں میں ملوث ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ نئے بل میں اب صرف حقانی نیٹ ورک کا نام اس بات کا مظہر ہے کہ واشنگٹن اب اپنی تمام تر توجہ افغانستان پر مرکوز رکھے گا جب تک طالبان اور ان سے منسلک دھڑوں کی کارروائیواں کا مکمل طور انسداد نہیں ہو جاتا۔
اگرچہ پاکستانی حکومت کی طرف سے اس نئی پیش رفت پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے تاہم حکمران جماعت کے قانون ساز نے اسے ایک خوش آئند اقدام قرار دیا ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاعی پیدوار کے سربراہ اور فوج کے سابق لفٹیننٹ جنرل عبدالقیوم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایک ذمہ دار ملک ہے جو اپنی سرزمین کسی بھی منفی سرگرمی کے لیے استعمال نہیں ہونے دے گا جو بین الاقوامی قانون خلاف ورزی ہے لیکن ان کے بقول اس کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان دیگر کسی تنظیم سے متعلق کوئی سستی دکھائے گا۔
انہوں نے کہا کہ " پاکستان کا واضح موقف ہے کہ حقانی گروپ ہو یا کوئی بھی ان کو اپنی سرزمین سے نکال باہر کیا ہے اور اگر اکا دوکا واقعات رونما ہوتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اففانستان کی طرف سرحد پوری طرح محفوظ نہیں ہے ہم اپنی پوری کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں میں تو یہ کہوں گا کہ اگر امریکہ حقانی گروپ کو بھی ڈی لنک کر دے تو تب بھی ہماری ریاست کی جو بین الاقوامی ذمہ داری ہے وہ ہم ادا کرتے رہیں گے۔"
افغان امور کے ماہر سینیئر صحافی رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا ہے کہ یہ اقدام واشنگٹن نے اسلام آباد کے نئی دہلی سے متعلق تحفظات کو مد نظر رکھ کر کیا ہے۔
" یہ اس لیے کیا گیا ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کے حوالے سے کم ازکم امریکہ اور افغان حکومت تعاون کرے اور ان کے خلا ف کارروائی کرے ۔ یہ ایک طریقے سے امریکہ نے کوشش کی ہے کہ پاکستان کے جو (بھارت سے متعلق) تحفظات ہیں ان کو مد نظر رکھا جائے۔"
رحیم اللہ کا مزید کہنا ہے امریکہ کی خواہش ہے کہ پاکستان ناصرف حقانی نیٹ ورک کے خلافکارروائی کرے بلکہ افغان طالبان عسکریت پسندوں پر اپنا اثر ورسوخ استعمال کرتے ہوئے انہیں مذاکرات کی میز پر لانے میں مدد کرے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ طالبان پر اس کا اثر ورسوخ اب کم ہو گیا ہے لیکن وہ افغانستان کے مسئلے کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا ۔