امریکہ نے کہا ہے کہ اگر افغانستان میں طالبان کی حکومت نے خواتین اور لڑکیوں سے متعلق اپنے حالیہ فیصلوں پر نظرثانی نہ کی تو ان پر دباؤ بڑھانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔
امریکہ کے محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے پیر کو میڈیا بریفنگ کے دوران کہا کہ طالبان کی جانب سے خواتین پر پابندیوں کے معاملے پر براہِ راست طالبان سے بات ہوئی ہے۔ اگر انہوں نے اپنے فیصلے واپس نہ لیے تو ہمارے پاس بہت سے متبادل راستے موجود ہیں۔
نیڈ پرائس نے مزید کہا کہ اگر ہم نے یہ محسوس کیا کہ طالبان اپنے فیصلوں پر نظرِ ثانی نہیں کریں گے تو ہم بھی آگے بڑھنے کے لیے تیار ہیں۔
نیڈ پرائس نے یہ واضح نہیں کیا کہ طالبان نے اگر اپنے فیصلے واپس نہ لیے تو امریکہ ان کے خلاف کیا اقدامات کر سکتا ہے۔
یاد رہے کہ طالبان کی وزارتِ امر بالمعروف ونہی عن المنکر نے سات مئی کو ایک حکم نامے میں خواتین کو ہدایت کی تھی کہ وہ عوامی مقامات پر اپنے چہرے کو ڈھانپ کر آئیں، اس سلسلے میں نیلے رنگ کا برقع بھی پہنا جا سکتا ہے۔
حکم نامے کے مطابق اگر ضابطے کی خلاف ورزی کی گئی تو ایسی خواتین کے مرد رشتہ دار یا سرپرست کو سزا دی جائے گی۔
حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ سیاہ رنگ کے کپڑے اور چادر کو بھی برقعے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ سیاہ کپڑا باریک نہ ہو اور جسم واضح نہ ہو جب کہ اتنا تنگ بھی نہ ہو جس سے جسم کے اعضا نمایاں نظر آئیں۔
امریکہ نے طالبان کے مذکورہ احکامات جاری کرنے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
امریکہ کے نمائندہٴ خصوصی برائے افغانستان تھامس ویسٹ نے سوشل میڈیا پر پوسٹس میں اس پر گہری تشویش کا اظہار کیا تھا جب کہ اقوامِ متحدہ میں امریکی مندوب لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے طالبان کے اقدام کو غیر انسانی عمل قرار دیا تھا۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نے پیر کو میڈیا بریفنگ کے دوران کہا کہ وہ اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ رابطے میں ہیں تاکہ ان کے ساتھ مل کر ایسے اقدامات کیے جائیں جن سے طالبان کے ماضی میں کیے جانے والے وعدوں کی پاسداری کرائی جا سکے اور وہ اپنے حالیہ فیصلوں کو واپس لیں۔
افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان اب تک خواتین سے متعلق کئی ہدایت نامے جاری کر چکے ہیں، جن میں مخلوط تعلیم کا خاتمہ، 70 کلومیٹر سے زائد سفر کے لیے محرم کے ساتھ ہونے کی شرط، مردوں اور خواتین کا الگ الگ ایام میں پارکوں میں جانا شامل ہے۔
عالمی برادری اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نےطالبان کی خواتین کی تعلیم ، روزگار ، آزادیٴ اظہار اور انسانی حقوق کی پالیسی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے تاہم طالبان نے اپنی کسی بھی پالیسی میں کوئی لچک نہیں دکھائی ۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' نے امریکہ کے حکام کے حوالے سے کہا ہے کہ افغانستان کے مرکزی بینک کے سات ارب ڈالرز امریکہ نے منجمد کیے ہوئے ہیں جن میں سے آدھی رقم بائیڈن انتظامیہ افغان عوام کی امداد کے لیے جاری کرنے کے لیے تیار ہیں۔
یاد رہے کہ 15 اگست 2021 کو طالبان کے افغانستان میں اقتدار میں آنے کے بعد امریکہ اور دیگر ممالک نے افغانستان کے لیے امداد روک دی تھی جب کہ افغانستان کے ساتھ لین دین پر بھی پابندی عائد کر دی تھی۔ اس پابندی کے باعث افغانستان کے مرکزی بینک کو ڈالر کی کمی اور ملک کو خوراک کے بحران کا سامنا ہے۔
(اس خبر میں شامل مواد خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے لیا گیا ہے۔)