رسائی کے لنکس

یوکرین تنازع: اعلیٰ روسی کمانڈر دس روزہ فوجی مشقوں کے لیے بیلارس پہنچ گئے


فوجی مشقوں میں 30 ہزار فوجی، ٹینک، زمین سے فضا میں مار کرنے والا ایس 400 میزائل سسٹم اور لڑاکا طیارے بھی شامل ہیں۔
فوجی مشقوں میں 30 ہزار فوجی، ٹینک، زمین سے فضا میں مار کرنے والا ایس 400 میزائل سسٹم اور لڑاکا طیارے بھی شامل ہیں۔

بیلاروس میں روسی فوجی مشقیں یوکرین کے لیے تازہ ترین خطرہ ہے، جومشقیں دارالحکومت کیف کی سرحد سے جنوب میں صرف 210 کلومیٹر کے فاصلے پر کی جا رہی ہیں۔ ماسکو نے بحیرہ اسود میں جنگی بحری جہاز بھی تعینات کیے ہیں اور یوکرین کے مشرقی کنارے پر اس کے ایک لاکھ سے زیادہ فوجی بھی جمع ہیں

روس کے اعلیٰ کمانڈر بدھ کے روز ہمسایہ ملک بیلارس پہنچ ہیں جہاں وہ ان 30 ہزار روسی فوجیوں کی مشقوں کا جائزہ لیں گے جو بیلارس کی فوجوں کو دس روزہ تربیت فراہم کر رہے ہیں۔ یوکرین کی سرحد کے ساتھ ماسکو کی طاقت کا یہ تازہ ترین مظاہرہ ہے۔ دوسری جانب امریکہ کے وزیر خارجہ انٹنی بلنکن اس بھی اس امید کا اظہار کر رہے ہیں کہ روس یوکرین تنازعے کا سفارتی حل نکل سکتا ہے۔

روس نے ان مشقوں کے لیے زمین سے فضا میں مار کرنے والے ایس۔ 400 میزائل سسٹم کی دو بٹالین اور متعدد لڑاکا طیاروں کو بھی بیلارس منتقل کر دیا ہے، جن کی کمان روسی مسلح افواج کے جنرل اسٹاف کے سربراہ جنرل ویلری گیراسیموف کر رہے ہیں۔

بیلارس میں روسی فوجی مشقوں کو یوکرین کے لیے تازہ ترین خطرہ ہ خیال کیا جا رہا ہے۔ یہ مشقیں دارالحکومت کیف کی سرحد سے جنوب میں صرف 210 کلومیٹر کے فاصلے پر کی جارہی ہیں۔ ماسکو نے بحیرہ اسود میں جنگی بحری جہاز بھی تعینات کیے ہیں اور یوکرین کے مشرقی کنارے پر اس کے ایک لاکھ سے زیادہ فوجی بھی جمع ہیں۔

دوسری جانب، یوکرین کی حکومت نے بھی جمعرات سے اپنی 10 روزہ فوجی مشقوں کا اعلان کیا ہے جن میں بغیر پائلٹ کے طیارے اور مغربی اتحادیوں کی طرف سے یوکرین کو فراہم کردہ ٹینک شکن میزائل بھی حصہ لیں گے۔

سفارت کاری ہی یوکرین تنازع کا بہترین حل ہے، بلنکن

امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ سفارتی طریقہ کار اپنانے سےہی روس یوکرین بحران کا بہترین حل نکل سکتا ہے؛ جس کے لیے وہ آئندہ دنوں فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے اپنے ہم منصبوں کے ساتھ مشاورت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن۔ فائل فوٹو
امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن۔ فائل فوٹو

چار ملکی اجلاس میں شرکت کے لیے آسٹریلیا جاتے ہوئے، بلنکن نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ امریکہ دو جہتی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ ایک طرف ہم سفارت کاری جاری رکھے ہوئے ہیں، جو کہ ہماری ترجیح ہے اور ذمہ دارانہ سوچ پر مبنی ہے؛ لیکن ساتھ ہی ہمیں کسی بھی قسم کی روسی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہناہوگا، جس کے لیے ٹھوس عملی اقدامات پر دھیان دینا ہوگا۔

امریکہ کے علاوہ اس چار ملکی اجلاس میں آسٹریلیا، جاپان اور بھارت شرکت کر رہے ہیں۔

اعلیٰ سطح کی سفارت کاری کو آگے بڑھاتے ہوئے بدھ کو برطانیہ کی وزیر خارجہ لز ٹرس ماسکو کا دورہ کر رہی ہیں، جہاں وہ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کے ساتھ بات چیت میں اس بات کو واضح کریں گی کہ ایک خودمختار ملک کے خلاف کسی مزید روسی جارحیت کے تمام فریقوں پرسنگین اثرات مرتب ہوں گے۔

ٹرس نے کہا ہے کہ روس کے پاس راستہ موجود ہے۔ ہم اس بات کی حوصلہ افزائی کریں گے کہ وہ بات چیت کے ذریعے، کشیدگی میں کمی لانے کے لیے سفارتی راستہ اختیار کرے۔

فرانسیسی صدر ایمانوئل میخواں نے منگل کے روز کہا کہ اس معاملے کے حل میں مہینوں لگ سکتے ہیں۔

میخواں نے کیف میں یوکرین کے صدر زیلنسکی کے ساتھ ملاقات کے بعد کہا تھا کہ 'جس شدت کا تناؤ ہمیں درپیش ہے اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی''۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے چند گھنٹے اس معاملے پر گفتگو کی ہے لیکن میں نہیں سمجھتا کہ بحران کو فوری طور پر ختم کیا جاسکتا ہے۔

برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن جمعرات کو پولینڈ کا دورہ کریں گے جہاں وہ نیٹو کے اتحاد میں شامل برطانوی فوج کے اعلیٰ عہدے داروں سے ملاقات کریں گے، اور پھر برسلز جائیں گے جہاں وہ نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژاں اسٹولٹنبرگ سے بات چیت کریں گے۔

یوکرین کے وزیر خارجہ دمترو کلیبا نے بدھ کو اخباری نمائندوں کو بتایا کہ یورپی اتحادیوں کی جانب سے جاری کوششوں کے نتائج سامنے آنے لگے ہیں۔ بقول ان کے، صورت حال کشیدہ ہے، لیکن کنٹرول میں ہے۔ سفارت کاری کی وجہ سے تناؤ میں کمی آ رہی ہے''۔

ویٹیکن سے اپنے ہفتہ وار خطاب میں، پوپ فرانسسس نے تمام فریقوں سے امن کی اپیل کی ہے۔

روس، فرانس، جرمنی اور یوکرین کے درمیان بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے، پوپ نے کہا کہ ''ہمیں خدا سے امن کی دعا کرنی چاہیے تاکہ سنجیدہ مکالمے کے ذریعے لڑائی کے خطرات اور تناؤ ختم کیا جائے؛ ہمیں چاہیے کہ نارمنڈی کے طرز پر بامقصد بات چیت کی راہ اختیار کی جائے۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی ہوگی کہ لڑائی دیوانگی ہے ''۔

ادھر منگل کے روز کریملن کے ترجمان، دمتری پیسکوف نے کہا تھا کہ اس ہفتے کے اوائل میں فرانسیسی صدر میخوان کی جانب سے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو پیش کردہ تجاویز ''معقول'' تھیں۔ تاہم، پیسکوف نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ ان تجاویز کے نتیجے میں بحران کا حل نکل آیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ابھی تک ہمیں یہ بات محسوس نہیں ہورہی ہے کہ ہمارے مغربی ہم منصب ہماری تشویش کو اہمیت دینے پر تیار ہیں۔

یوکرین سے ایسو سی ایٹڈ پریس کی ایک خبر کے مطابق، اب معاملہ یہ نہیں رہا کہ روس نے یوکرین کی سرحد کے ساتھ ایک لاکھ سے زائد افواج تعینات کر رکھی ہیں،ادھر مشرقی یوکرین میں خندقیں کھودنے کا کام جاری ہے؛جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خندقیں کھودنا کیوں ضروری سمجھا جا رہا ہے؟ کیا حملے کا خطرہ شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے؟ گزشتہ آٹھ برس سے بار بار یہی کچھ ہوتا آیا ہے۔

یوکرین کی سرحد 250 میل (400 کلومیٹر) طویل ہے۔خندقیں کھودنے کا کام سال 2013ء میں بھی ہوا تھا۔ سال 2014ء میں روس نے حملہ کر کے کرائمیا کے جزیرے کو ضم کر لیا تھا، جب کہ ڈونباس کے مشرقی صوبے کے علیحدگی پسندوں کی کھل کر مدد کی تھی۔ لوگوں کے خدشات بے جا نہیں لگتے۔ تاہم روس اپنے خلاف لگائے جانے و الے الزامات کو مسترد کرتا ہے۔

(خبر کا مواد اے پی، اے ایف پی اور رائٹرز سے لیا گیا ہے)

XS
SM
MD
LG