شام کےسرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ حکومتی افواج نے اتوار کے روزحلب میں بم برسائے، جس کے باعث درجنوں افراد ہلاک ہوئے، جب کہ ملک کے اِس سب سے بڑے شہر میں پانی کی رسد میں قلت کی صورتِ حال مزید شدید ہوگئی ہے۔
حزب مخالف سے تعلق رکھنے والے سرگرم کارکنوں نے بتایا ہے کہ اِن حملوں کا ہدف حلب کے شمالی شہر کا رہائشی علاقہ تھا۔ اِس سے قبل، باغی دستے اِن علاقوں کےقبضے کے حصول کے لیے حکومت سے لڑ ائی لڑ رہے تھے۔
ہلاک ہونے والوں کی اصل تعداد واضح نہیں اور اِن خبروں کی غیر جانبدارانہ طور پر تصدیق نہیں ہوپائی۔
اِس شدید لڑائی سے ایک روز قبل حلب کے باسیوں کو پانی کی رسد منقطع ہوئی، جِس کا باعث حکومتی فوج اور باغیوں کے درمیان لڑائی کے دوران شہر کی کلیدی پائپ لائن کو پہنچنے والا نقصان بتایا جاتا ہے۔
اپوزیشن کے سرگرم کارکنوں نے کہا ہے کہ پانی کی اِس پائپ لائن کو اُس وقت نقصان پہنچا جب شامی فوج نے باغیوں کو ہدف بنایا، جب کہ شامی حکام نے باغیوں پر سبوتاژ کا الزام لگایا ہے۔
دریں اثنا، امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے کہا ہے کہ روسی راہنماؤں سے شام کے بارے میں ہونے والی بات چیت بے نتیجہ ثابت ہوئی۔
امریکہ کی اعلیٰ ترین سفارتکار پیسیفک خطے کے ممالک کے سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے روس میں تھیں۔
اُنھوں نے کہا کہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن اور وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے ساتھ ملاقاتوں کے دوران صدر بشار الاسد کے آمرانہ طرز حکمرانی کےخلاف اُٹھ کھڑی ہونی والی شامی بغاوت سے نمٹنےسے متعلق بات چیت میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
ہلری کلنٹن نے کہا کہ اخلافات بڑھنےکی صورت میں شام کی اپوزیشن کی جدوجہد کی حمایت کی غرض سے ’ہم خیال‘ ممالک کے ساتھ مل کر آگے بڑھنے کےبارے میں سوچا جا سکتا ہے۔
لاوروف نے کہا کہ شام کے خلاف یکطرفہ امریکی پابندیاں علاقے سےدور کے اقدام معلوم ہوتا ہے، جِن کے باعث روسی کاروباری مفادات پر براہِ راست ضرب پڑتی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ماسکو نےیہ بات واضح کردی ہے کہ یہ انداز قابلِ قبول نہیں ہے۔
روس اور چین نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بارہا مغربی اورعرب ملکوں کی طرف سے صدر اسد کے خلاف پابندیاں عائد کرنے سے متعلق منظور کی گئی قراردادوں کو بلاک کرنے کی کوششیں کی ہیں۔
شام میں 18 ماہ سے جاری بغاوت کے دوران اب تک 20000سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ ہزاروں لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر بھاگ نکلنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
حزب مخالف سے تعلق رکھنے والے سرگرم کارکنوں نے بتایا ہے کہ اِن حملوں کا ہدف حلب کے شمالی شہر کا رہائشی علاقہ تھا۔ اِس سے قبل، باغی دستے اِن علاقوں کےقبضے کے حصول کے لیے حکومت سے لڑ ائی لڑ رہے تھے۔
ہلاک ہونے والوں کی اصل تعداد واضح نہیں اور اِن خبروں کی غیر جانبدارانہ طور پر تصدیق نہیں ہوپائی۔
اِس شدید لڑائی سے ایک روز قبل حلب کے باسیوں کو پانی کی رسد منقطع ہوئی، جِس کا باعث حکومتی فوج اور باغیوں کے درمیان لڑائی کے دوران شہر کی کلیدی پائپ لائن کو پہنچنے والا نقصان بتایا جاتا ہے۔
اپوزیشن کے سرگرم کارکنوں نے کہا ہے کہ پانی کی اِس پائپ لائن کو اُس وقت نقصان پہنچا جب شامی فوج نے باغیوں کو ہدف بنایا، جب کہ شامی حکام نے باغیوں پر سبوتاژ کا الزام لگایا ہے۔
دریں اثنا، امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے کہا ہے کہ روسی راہنماؤں سے شام کے بارے میں ہونے والی بات چیت بے نتیجہ ثابت ہوئی۔
امریکہ کی اعلیٰ ترین سفارتکار پیسیفک خطے کے ممالک کے سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے روس میں تھیں۔
اُنھوں نے کہا کہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن اور وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے ساتھ ملاقاتوں کے دوران صدر بشار الاسد کے آمرانہ طرز حکمرانی کےخلاف اُٹھ کھڑی ہونی والی شامی بغاوت سے نمٹنےسے متعلق بات چیت میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
ہلری کلنٹن نے کہا کہ اخلافات بڑھنےکی صورت میں شام کی اپوزیشن کی جدوجہد کی حمایت کی غرض سے ’ہم خیال‘ ممالک کے ساتھ مل کر آگے بڑھنے کےبارے میں سوچا جا سکتا ہے۔
لاوروف نے کہا کہ شام کے خلاف یکطرفہ امریکی پابندیاں علاقے سےدور کے اقدام معلوم ہوتا ہے، جِن کے باعث روسی کاروباری مفادات پر براہِ راست ضرب پڑتی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ماسکو نےیہ بات واضح کردی ہے کہ یہ انداز قابلِ قبول نہیں ہے۔
روس اور چین نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بارہا مغربی اورعرب ملکوں کی طرف سے صدر اسد کے خلاف پابندیاں عائد کرنے سے متعلق منظور کی گئی قراردادوں کو بلاک کرنے کی کوششیں کی ہیں۔
شام میں 18 ماہ سے جاری بغاوت کے دوران اب تک 20000سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ ہزاروں لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر بھاگ نکلنے پر مجبور ہوئے ہیں۔