امریکی آئین میں چرچ اور مملکت کے درمیان علیحدگی کی ایک دیوار کھڑی کی گئی ہے۔ نہ صرف یہ کہ حکومت مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی ، بلکہ اقلیتوں کو عبادت کی مکمل آزادی کی ضمانت بھی دی گئی ہے۔
نیو یارک کے میئر مائیکل بلوم برگ نے کہا ہے کہ اسلامک سینٹر امریکہ میں مذہب اور مملکت کے درمیان علیحدگی کا اہم ترین ٹیسٹ ہو سکتا ہے جو ہم اپنی زندگی میں دیکھیں گے۔
لیکن دانشور کہتے ہیں کہ عملی طور پر مذہبی آزادی مکمل طور سے غیر مشروط نہیں ہوتی ۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکہ میں مذہبی اقلیتوں نے اکثر ایسے لائحہ عمل کا انتخا ب کیا ہے جس سے پروٹیسٹنٹ مسیحیوں کی اکثریت ناراض نہ ہو۔
جان فرینا جارج میسن یونیورسٹی میں مطالعۂ مذہب کے پروفیسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب میری لینڈ کی ریاست ایک رومن کیتھولک کالونی کی حیثیت سے قائم ہوئی، تو کیتھولک مذہب کے بیشتر ماننے والے بڑے بڑے چرچ بنانے کے بجائے اپنی مذہبی تقریبات اپنے فارمز پر مناتے تھے ۔وہ کہتے ہیں کہ مذہبی عقائد کا احترام اب بھی جاری ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکہ میں یہودیوں کا سب سے بڑا گروپ جسے Reform Movement کہا جاتا ہے، اس نے ہمیشہ یہودیوں پر امریکی ثقافت سے ہم آہنگ ہونے پر زور دیا ہے۔
اسلامک سینٹر کے مخالفین کہتے ہیں کہ ان 2,700 افراد کے گھرانوں کے احترام میں جو ان حملوں میں ہلاک ہوئے تھے، اسے گراؤنڈ زیرو سے زیادہ فاصلے پر لے جانا چاہیئے۔
فواد عجمی جانز ہاپکنز یونیورسٹی میں مڈل ایسٹ اسٹڈیز کے پروفیسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’دنیا میں جو بھی آزادی ہے، معاشرے میں ہمیں جو بھی آزادی حاصل ہے، اس میں دانشمندی کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے، حسبِ ِ ضرورت لچک پیدا کرنی پڑتی ہے اور دوسرے لوگوں کی آرا کا خیال کرنا پڑتا ہے‘‘۔
عجمی کہتے ہیں کہ اسلام میں دانشمندی کی ایسی بہت سی روایتیں موجود ہیں۔ جب مسلمانوں نے ساتویں صدی میں یروشلم کو فتح کیا، تو عیسائی سردار نے خلیفہ عمر بن الخطا ب سے کہا کہ اگر وہ چاہیں تو چرچ میں ہی نماز ادا کر لیں۔ عجمی مزید کہتے ہیں کہ ’’اسلامی قانون اور اسلامی تاریخ میں کہا گیا ہے کہ عمر بن الخطاب نے اس دعوت کو منظور نہیں کیا۔ انھوں نے کہا کہ میرے پیرو کار بھی میرے پیچھے پیچھے آئیں گے اور پھر وہ کہیں گے کہ یہ جگہ مقد س ہو گئی ہے۔ اس لیے میں یہاں سے دور کسی اور جگہ نماز ادا کروں گا‘‘۔
لیکن بعض دوسرے دانشور کہتے ہیں کہ کسی کی خاطر اپنے رویے کو تبدیل کرنے کا مطلب دوسرے کی بالادستی قبول کرنے کے مترادف ہے۔ Obery Hendricks نیو یارک کی کولمبیا یونیورسٹی کے شعبۂ مذاہب میں لیکچر دیتے ہیں ۔ ایک افریقی امریکی کی حیثیت سے وہ امریکہ میں غلامی کے تجربے کا حوالہ دیتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ’’ہمیں لوگوں سے یہ توقع نہیں کرنی چاہیئے کہ وہ سرِ تسلیم خم کیے اپنی زندگی گزارتے رہیں گے اور اس دن کی آس لگائے رہیں گے، جب اکثریت ان سے کہے گی کہ اب آپ کو سر اٹھانے اور معاشرے کا حصہ بننے کی اجازت ہے‘‘ ۔
لیکن ان کی دلیل بھی یہی ہے کہ مسلمانوں کو امریکہ میں آزادی اور برابری حاصل ہے ، اس کے باوجود کہ گراؤنڈ زیرو کے نزدیک مسجد کی تعمیر کی مخالفت کرنے والے لوگ مسلمانوں کے خلاف بیان بازی میں مصروف ہیں اور رائے عامہ کے ایک جائزے میں کہا گیا ہے کہ بیشتر امریکی مسجد کی تعمیر کے مخالف ہیں۔
لیکن دانشور کہتے ہیں کہ جس شد و مد سے مسجد کی تعمیر کی مخالفت کی جا رہی ہے، اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا تعلق اس بات سے بھی ہے کہ 11 ستمبر کے حملے کے مقام کو یادگار بنانے کے لیے کوئی خاص کوشش نہیں کی گئی ہے ۔ صدر اوباما اور دوسرے لوگ اسے مقدس مقام تو کہتے ہیں لیکن اس کے نزدیک ہی شراب کی دوکانیں اور فحش اشیاء فروخت کرنے والے اسٹور موجود ہیں۔ اور یادگار کے طور پر اس کے نزدیک جو ایک میوزیم بنایا جا رہا ہے اس کے بارے میں مسلسل اختلافات پیدا ہوتے رہتے ہیں۔
فرینا کہتے ہیں کہ قبرستان ہمیشہ مقدس جگہ ہوتی ہے جس سے گہرے مذہبی جذبات پیدا ہوتے ہیں۔
نینسی ولسن کا تعلق ٹیکسس ہے ، اگرچہ آج کل وہ متحدہ عرب امارات میں رہتی ہیں ۔ وہ کہتی ہیں کہ مسلمانوں کو لوئر مین ہٹن میں مسجد بنانے کا حق حاصل ہے لیکن میرے خیال میں انہیں دوسرے لوگوں کے جذبات کا خیال کرنا چاہیئے اور اسے کچھ فاصلے پر بنانا چاہیئے۔
امریکی کہتے ہیں کہ وہ اب بھی مذہبی آزادی پر پکا یقین رکھتے ہیں۔ لیکن گراؤنڈ زیرو پر کسی یادگارکی تعمیر کی کوششیں کامیاب نہیں ہوئی ہیں اور نزدیک ہی ایسے مذہب کی عبادت گاہ تعمیر ہونے کے امکان سے دہشت گرد جس کی پاسداری کے دعوے دار تھے، اس ملک میں لوگوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔