امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے جمعے کو ماحول کے تحفظ کے عالمی معاہدے پیرس کلائمیٹ ڈیل 2015 میں امریکہ کی شمولیت کا دوبارہ اعلان کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیاں دنیا کی بقا کو درپیش انتہائی سنگین خطرہ ہیں، جن کے حل پر فوری توجہ دینا ضروری ہے۔
جو بائیڈن نے وائٹ ہاؤس سے میونخ میں ہونے والی ورچوئل سیکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "اگر ہم اس مسئلے سے نمٹنے میں ناکام ہو گئے تو اس کی قیمت ہم سب کو ادا کرنی ہو گی"۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں فوری طور پر آلودگی کے اخراج کی روک تھام کے لئے جارحانہ حکمت عملی اپنانی ہو گی اور اپنے اہداف کو پورا کرنے اور انہیں بڑھانے کے لئے ایک دوسرے کو جواب دہ بنانا ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی لئے صدر کے طور پر میں نے فوری طور پر پیرس ماحولیاتی معاہدے میں دوبارہ شرکت کا فیصلہ کیا ہے اور آج امریکہ ایک بار پھر باقاعدہ طور پر پیرس ماحولیاتی معاہدے میں، جسے مرتب کرنے میں بھی امریکہ کی کوششیں شامل تھیں، شمولیت اختیار کر رہا ہے۔
امریکی صدر کا یہ اقدام ٹرمپ انتظامیہ کے پالیسی سے یکسر مختلف ہے، جس کے تحت امریکہ نے گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو روکنے کے لئے طے پانے والے پیرس ماحولیاتی معاہدے سے نکلنے کا فیصلہ کیا تھا۔
جو بائیڈن نے گزشتہ چار سال کے دوران ماحول کے تحفظ کے لئے اقدامات جاری رکھنے پر اپنے یورپی ہم منصب رہنماؤں کا شکریہ بھی ادا کیا۔
وائٹ ہاؤس سے اس ورچوئل اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ ہمیں مل جل کر ٹیکنالوجی میں جدت لانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ مستقبل کے لئے صاف توانائی پیدا کی جا سکے اور عالمی منڈیوں کے لئے صاف توانائی پر مبنی حل فراہم کئے جا سکیں۔
2017 میں، اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کے پیرس ماحولیاتی معاہدے سے نکلنے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ ایسا کرنا امریکہ کے معاشی مفاد میں ہے۔ لیکن اس معاہدے کی شرائط کی رو سے امریکہ کو معاہدے سے باقاعدہ طور پر الگ ہونے میں چار نومبر 2020 تک، یعنی امریکہ میں حالیہ صدارتی انتخاب کے ایک روز بعد تک کا وقت لگ گیا۔