رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے


امریکی اخبارات سے
امریکی اخبارات سے

مصر کے سابق صدر حسنی مبارک کا قومی پیسہ خُوردبُرد کرنے اور900شہریوں کی ہلاکت کا حکم دینے کے الزام میں قاہرہ میں جو مقدمہ شروع ہوا ہے اُس پر ’لاس اینجلس ٹائمز‘ ایک اداریے میں لکھتا ہے کہ اِس وقت جو فوجی حکام ایک سویلین حکومت قائم ہونے تک برسرِ اقتدار ہیں اُن پر یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اِس مقدمے کو منصفانہ نہج پر چلانے کو یقینی بنائیں۔

اخبار کہتا ہے کہ سابق صدر پر کرپشن کے جو الزامات ہیں اُن کے مطابق اُنھوں نے غیر ملکی بینکوں میں کم از کم 47کروڑ ڈالر کی بھاری رقم چھپا رکھی ہے۔ لیکن زیادہ سنگین الزام 800احتجاجی مظاہرین کا قتلِ عام ہے جو اخبار کی نظر میں بالکل مناسب ہے اور جس پر حسنی مبارک پر ضرور مقدمہ چلنا چاہیئے۔

عرب ملکوں میں رواں عوامی تحریکوں کے دوران دوسری آمرانہ حکومتوں، مثلاً کرنل قذافی کی طرح حسنی مبارک بے گناہوں کا خوں بہانے کے لیے بالکل تیار ہوتے تھے، تاکہ اپنا اقتدار بچا سکیں۔

اخبار کہتا ہے کہ یہ ایک جرم بھی ہے اور ایک سیاسی فعل بھی۔ لہٰذا، استغاثہ کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ مبارک کو ذاتی طور پر اِس کا علم تھا کہ مسلح افواج عام شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔

اخبار نے زور دے کر کہا ہے کہ کھلا مقدمہ اُسی صورت میں قابلِ قبول ہوسکتا ہے جو یہ ثابت کرے کہ مصر کا نظامِ عدل سیاست سے مبرّا ہے۔

اخبار ’سیٹل ٹائمز‘ میں سنڈی کیٹڈ کا لم نویس ٹامس فریڈمن کا شام کی موجودہ سیاسی تحریک پر ایک مضمون چھپا ہے جِس میں وہ کہتے ہیں کہ عوامی تحریک کو دبانے کا کام دراصل موجودہ صدر بشار الاسد کے والد حافظ الاسد کے زمانے سے چلا آرہا ہے، جب اس سابق صدر کے خلاف 1982ء میں ہاما کے علاقے میں سنی مسلمانوں کی طرف سے بغاوت ہوئی تھی اورجسے صدر حافظ الاسد نے بے دردی سے کچل دیا تھا۔

اُنھوں نے پہلے ہاما کے محلّوں کے محلّوں پر گولہ باری کی اور عمارتوں کو لوگوں سمیت ڈائنامائیٹ سے اڑا دیا تھا اور بعد میں اسٹیم رولر چلا کر پورے علاقے کو بالکل ہموار کردیا تھا۔

فریڈمن نے ویزا حاصل کرنے کے بعد اِس علاقے کا خود مشاہدہ کیا تھا اور کہا تھا اِس میں جتنی بستیاں تباہ و برباد ہوگئی تھیں اُن کا رقبہ فٹ بال کے چار میدانوں کے برابر تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ایک آندھی نے ایک ہفتے تک اِس علاقے کو تہ و بالا کرکے رکھ دیا ہے۔

’ایمنسٹی انٹرنیشل‘ کے مطابق اِس غیر انسانی سفاکی کے نتیجے میں مرنے والوں کی تعداد کا تخمینہ 20000ہے جو سب وہاں زمین تلے دب گئے تھے۔

ٹام فریڈمن کہتے ہیں کہ حافظ الاسد کے بیٹے اور موجودہ شامی صدر بشار الاسد اپنے والی کی روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں اور نئی عوامی بغاوت کو جس کا مرکز پھر ہاما ہے کچلنے کے لیے بھاری پیمانے پر قتل و غارت کا سہارا لے رہے ہیں۔

فریڈمن کہتے ہیں کہ عرصہ ٴ دراز تک جابر حکمراں اپنی رعایا میں خوف و ہراس پیدا کرکے اپنا تسلط برقرار رکھتے رہے۔

فریڈمن کہتے ہیں کہ اِن ڈکٹیٹروں نے کوئی سول معاشرہ تعمیر نہیں کیا، کوئی ادارے نہیں بنائے، کوئی جمہوری تجربہ نہیں کیا۔ اب یمن، لبیا، شام، مصر اور تیونس ایک عبوری دور سے گزر رہے ہیں اور نظر آرہا ہے کہ یہ کس قدر مشکل دور ہوگا لیکن مصنف نے اپنے اِس یقین کو دہرایا ہے کہ عرب قوموں کے اپنے ڈکٹیٹروں سے جان چھڑانے کا جذبہ صرف اولولعزمانہ بلکہ انتہائی مثبت ہے جِس کی مدد سے وہ بالآخر اِن ڈکٹیٹروں سے جان چھڑا لیں گے۔ لیکن اِس کے لیے وقت درکار ہوگا۔

’فلاڈلفیا انکوائرر‘ نے امریکہ میں قانون میں رد وبدل کرنےکی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ فراڈ کرکے سیاسی پناہ لینے کی روش کا سدِ باب ہو۔

اخبار کہتا ہے کہ ایک طرف اُن افراد کی تعداد مقرر ہے جو ہر سال قانونی طور پر دوسرے ممالک سے نقل ِ وطن کرکے یہاں آتے ہیں جب کہ دوسری طرف اُن لوگوں کی تعداد کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی ہے جو اپنے ملک میں سیاسی اذیت رسانی کے خطرے کا بہانہ کرکے سیاسی پناہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔

اخبار کہتا ہے کہ اُن میں سے بہت سے لوگوں کے بارے میں باور کیا جاتا ہے کہ وہ جھوٹ بول کر قانونی طور پر سیاسی پناہ حاصل کرتے ہیں اور بعد میں امریکی شہری بھی بن جاتے ہیں اور جِن غلط بیانیوں کا اُنھوں نے سہارا لیا ہوتا ہے وہ کبھی طشت از بام نہیں ہوتیں۔ لہٰذا، اخبار کہتا ہے کہ اِس طرح امریکہ، اُس کے عوام اور اُس کے قانون کے ساتھ جو امی گریشن فراڈ جاری ہے اور اُس کو روکنے کے لیے کوئی قدم اُٹھانے کی ضرورت ہے۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG