ٹرمپ انتظامیہ نے جمعرات کو کہا کہ امریکہ کے سفارت کاروں کی اپنے ایرانی ہم منصوبوں کے ساتھ ہونے والی ایک براہ راست ملاقات میں ایران میں زیر حراست امریکی شہریوں کی رہائی پر زور دیا ہے۔
ٹرمپ کے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد سے امریکہ اور ایران کے درمیان ہونے والی براہ راست بات چیت کو پہلی بار سرکاری طور تسلیم کیا گیا ہے۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے کہا کہ یہ مذاکرات رواں ہفتہ ویانا میں ہونے والے اجلاس کے موقع پر ہوئے، جن کا محور ایران کے جوہری سمجھوتہ پر عمل درآمد کا جائزہ لینے کے معاملے سے تھا۔
ٹرمپ نے اس سات ملکی سمجھوتے کی مخالفت کی تھی جو صدر براک اوباما کی انتظامیہ کی قیادت میں طے پایا تھا۔
تاہم ٹرمپ انتظامیہ کے معاونین نے حال ہی میں اس بات کی تصدیق کی تھی کہ ایران اپنے اس وعدہ کو ایفا کر رہا ہے کہ وہ اپنے جوہری پروگرام کو جوہری ہتھیار بنانے کے لیے آگے نہیں بڑھائے گا۔
ٹرمپ اور ان کے اعلیٰ مشیروں نے شام کے صدر بشار الاسد، یمنی باغیوں اور مشرق وسطیٰ میں عسکریت پسندوں کی مدد کرنے پر ایران پر کھلے عام تنقید کی۔
آسٹریا میں منگل کو ہونے والی ملاقات کے بارے میں ٹونر نے کہا کہ "امریکی وفد نے ایرانی وفد کے ساتھ ایران میں زیر حراست اور لاپتا امریکی شہریوں کے معاملے پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا اور ایران پر زور دیا کہ وہ فوری طور ان امریکی شہریوں کو رہا کر دے تاکہ وہ اپنے خاندانوں کے ساتھ آ ملیں۔"
ٹونر نے ایرانی نژاد امریکی تاجر سیمک نمازی اور ان کے 81 سالہ والد باقر نمازی کو حراست میں رکھے جانے کا حوالہ دیا جو "امریکی حکومت کے ساتھ تعاون کرنے" کے الزام میں 10 سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
نوجوان نمازی اکتوبر 2015ء سے زیر حراست ہیں جب کہ ان کے والد کو فروری 2016ء میں تحویل میں لیا گیا تھا۔
مبینہ طور پر ایران نے دوہری شہریت کے حامل افراد کو مغربی ممالک کے ساتھ مذاکرات میں سودے بازی کے لیے حراست میں رکھا ہوا ہے۔ اسی طرح کا قابل ذکر معاملہ امریکہ کے ساتھ 2016ء میں ہونے والا قیدیوں کا تبادلہ ہے، جو اس وقت ہوا جب جوہری سمجھوتے کے تحت امریکی تعزیرات کو اٹھایا جارہا تھا۔
مارک ٹونر نے امریکہ کے وفاقی تحقیقاتی ادارے 'ایف بی آئی' کے سابق اہلکار رابرٹ لیونسن کے معاملے کا بھی ذکر کیا جو 2007ء میں بطور نجی سراغ رساں کے طور پر کام کرنے کے دوران ایران میں لاپتا ہو گئے تھے۔
ٹونر نے کہا کہ "ایران نے باب کو واپس وطن لانے کے معاملے میں تعاون کرنے کا وعدہ کیا تھا اور ہم ایران سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنا وعدہ پوار کرے۔۔۔ امریکہ باب کو اپنے خاندان کے پاس واپس لانے کی کوششوں کو جاری رکھنے کے عزم پر قائم ہے۔"
ٹونر نے ایک دوسرے ایرانی نژاد امریکی شخص کا کوئی ذکر نہیں کیا جسے حال ہی میں ضمانت پر رہا کیا گیا ہے جسے "امریکہ کے ساتھ تعاون کرنے کے" الزام میں ایک طویل عرصہ تک قید میں رکھا گیا۔
اگرچہ رابن شاہینی کو جیل سے رہا کر دیا گیا ہے تاہم یہ واضح نہیں کہ کیا اسے ایران سے باہر جانے کی اجازت دی جائے گی یا نہیں۔
شاہینی علیل والدہ کی عیادت کے لیے ایران آئے تھے جہاں گزشتہ سال جولائی میں انہیں حراست میں لے لیا گیا۔
دسمبر میں انسانی حقوق کے ایک گروپ نے رپورٹ دی تھی کہ ایک آرٹ گیلری کے ایرانی نژاد امریکی شہری کرن وفاداری اور ان کی ایرانی اہلیہ کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔