رسائی کے لنکس

امریکی اخبار ات سے: فضل اللہ کی کارستانیاں


فائل
فائل

’ایک وقت تھا جب وہ ایک متحرک ریڈیو ٹرانسمٹر چلایا کرتا تھا اور اِس کی نسبت سے وہ ’ملّا ریڈیو‘ کے نام سے بھی مشہور ہے۔ اور اس پر وہ پاکستان کی وفاقی حکومت، موسیقی، تعلیم اور پولیو کے ٹیکوں کے خلاف زہر اُگلتا تھا ۔ اُس وقت اُس کے لشکریوں کی تعداد ہزاروں میں تھی‘: واشنگٹن پوسٹ

سوات کی چودہ سالہ ملالہ یوسف زئی پربزدلانہ حملے کےپیچھے طالبان کےجس دھڑے کا ہاتھ تھا اُس کےبدنام جہاں سربراہ مُلّا فضل اللہ کی کارستانیوں پر’ واشنگٹن پوسٹ‘ میں ایک طویل تجزئے میں بتایا گیا ہےکہ اس شخص کا سوات کی دُور اُفتادہ اور خوبصورت وادی کے باہر شائد ہی اتنا شُہرہ ہو، لیکن وُہ خواتین کی تعلیم کے خلاف مہم چلانے کے لئے بد نامٕ جہاں ضرور ہو چکا ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ سوات کے طالبان کے اس سربراہ کے بارے میں پُوری معلومات رکھنے والوں میں امریکی فوج شامل ہےجو تین سال قبل فضل اللہ کے سوات سے فرار ہونے کے بعد اُس کے تعاقب میں ہےاور اُس کے تشدّد اور شہریوں کو موت کے گھاٹ اُتارنے کے گٕھناؤنے جرائم کی وجہ سے نیٹو افواج کو اُس کی تلاش ہے۔

اخبار کے بقول، ’ایک وقت تھا جب وہ ایک متحرک ریڈیو ٹرانسمٹر چلایا کرتا تھا اور اِس کی نسبت سے وہ ’ملّا ریڈیو‘ کے نام سے بھی مشہور ہے۔ اور اس پر وہ پاکستان کی وفاقی حکومت ، موسیقی، تعلیم اور پولیو کےٹیکوں کے خلاف زہر اُگلتا تھا ۔ اُس وقت اُس کے لشکریوں کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ لیکن، سنہ 2009 میں فوج نے اُس کے خلاف کاروائی کی تو اُس نے بھاگ کر افغانستان کے کُنّڑ علاقے میں پنا ہ لی ، جہاں سے اب وہ کوئی فوجی کاروائی کرنے کے قابل تو نہیں رہا لیکن اُس نے ایسے کمزور اور ناتواں لوگوں کو نٕشانہ بنانے کی مُہم جاری رکھی ہے جو مزاحمت نہیں کر سکتے‘۔

’چودہ سالہ ملالہ یوسف زئی پرقاتلانہ حملہ بھی اسی کا ایک شاخسانہ ہے۔اور جیسا کہ ماہرین کہہ چُکے ہیں اس حملے سے ملا فضل اللہ کا مقصد لوگوں کی توجّہ اپنی طرف مبذول کرانا تھا ۔‘

لیکن، اخبار کہتا ہے کہ اِس بُز دلانہ حملے کے بعد پُورے پاکستان میں تعلیم نسواں کے حق میں زبر دست مظاہرے ہوئے ہیں۔ پاکستانی عہدہدار وں کا کہنا ہے کہ ملالہ پر حملےکے بعد متعدد گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں۔ لیکن، فضل اللہ ابھی تک آزاد ہے اور ممکن ہے کہ سرحد عبور کر کے پاکستان واپس آئے۔

رواں سال کے صدارتی انتخابات کے لئے عام طور پر صرف دو نام سُننے میں آتے ہیں، ایک تو موجودہ بر سر اقتدار صدر براک اوبامہ اور دوسرے اُن کے ری پبلکن حریف مٹ رامنی ۔ لیکن، حقیقت یہ ہے کہ إن دو کے علاوہ غیر معروف سیاسی جماعتوں کے بھی امید وار ہیں جو یہ انتخاب لڑ رہے ہیں ۔ لیکن ، جنہیں صدارتی امید واروں کے درمیان ہونے والے مباحثوں میں شرکت کی دعوت نہیں دی جاتی۔

اب تک ایسے دو مباحثے ہو چُکے ہیں اور تیسرا مباحثہ اگلے ہفتے ہونے والا ہےجن میں ان چھوٹی پارٹیوں کے امید واروں کو مدعُو نہیں کیا گیا ہے۔

لیکن، واشنگٹن کے اخبار ’ ایکسپریس‘ کے مطابق امریکہ کے معروف ٹاک شو ہوسٹ، لیری کٕنگ بھی ایک صدارتی مباحثے کی میزبانی کرنے والے ہیں جس میں صدر اوبامہ اور مٹ رامنی تو نہیں ہونگے البتہ اس میں چھوٹی چھوٹی امریکی سیاسی پارٹیوں کےامّید وار شرکت کریں گے ۔ ان میں لٕبر ٹیر ین پارٹی کے گیری جانسن، گرین پارٹی کی جٕل سٹا ئین، کانس ٹی ٹُیوشن پارٹی کے ورجل گُوڈ اور جسٹس پارٹی کے راکی اینڈرسن شامل ہیں۔

اور, آخر میں ذکر ہے آری گن کے ستّر سالہ کاشت کار ٹیری گارنر کا جس کی اپنے ہی پالتو جانوروں کے ہاتھوں ہلاکت ہو گئی۔

کُوذ کاؤنٹی کا یہ کاشت کار اپنے پالتو سُورُوں کے احاطے میں چارہ ڈالنے کے گیا تھا لیکن وہاں سے واپس نہیں آیا۔ بعد میں، اُس کے افراد خانہ کو اُس کےمصنوعی دانت اور اُس کےجسم کے کُچھ حصّے احاطے سے ملے۔

لیکن، اُس کے جسم کا بیشتر حصّہ کھایا جا چُکا تھا اور باور کیا جاتا ہے کہ اس کو شاید دل کا دورہ پڑا ہوگا۔ یا پھراسی قسم کی کوئی اُفتاد پڑی ہوگی جس کے بعد وہ زمین پر گر گیا اور سُور اُسے کھا گئے۔ إن سوروں میں سے بعض کا وزن سات سات سو پونڈ سے زیادہ تھا۔
XS
SM
MD
LG