رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: گیلانی توہین عدالت کے مجرم قرار


اس کیس کی وجہ سے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی پر دباؤ تو ختم ہو گیا ہے، لیکن وہ اب بھی آئین کی اُس شق کے تحت اپنا عہدہ کھو سکتے ہیں جس کے مطابق کوئی مُجرم کسی پبلک عہدے پر برقرار نہیں رہ سکتا

پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو ملک کی سپریم کورٹ کی جانب سے توہین عدالت کا مجرم قرار دئے جانے کی خبر کی امریکی ذرائع ابلاغ میں بڑی تشہیر ہوئی ہے ۔ اور نیو یارک ٹائمز نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ انہیں عدالت نے جو علامتی سزا دی ہے۔اس سے اس کیس کی وجہ سے ان پر دباؤ تو ختم ہو گیا ہے، لیکن وہ اب بھی اپنا عہدہ کھو سکتے ہیں ، کیونکہ مجرم قرار دئے جانے کی وجہ سے اُن کی گردن پر آئین کی اُس شق کی تلوار لٹکتی رہے گی جس کے تحت کوئی مُجرم کسی پبلک عہدے پر برقرار نہیں رہ سکتا ۔

لیکن، برطرفی کے طریق کار کے دو مرحلے ہیں جس میں سپیکر قومی اسمبلی ، اور الیکشن کمیشن کی کُچھ ذمہ داریاں ہیں اوراس میں کم از کم ایک مہینہ یا اس سے زیادہ کا وقت لگ سکتا ہے اور اِس دوران حکمران پیپلز پارٹی مسٹر گیلانی کو کُشتہء عدالت اور شہید کے طور پر پیش کرے گی ۔

اخبار کہتا ہے ۔کہ فیصلہ آنے کے بعد ان کی پارٹی والوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ انہیں اس لئے نشانہ بنایا گیا ہے کیونکہ عدالت کا ملک کی طاقتور فوج کے ساتھ ملاپ ہے ، اخبار نے وفاقی وزیر نذر محمد گوندل کے حوالے سے بتایا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ عدالتیں صرف پیپلز پارٹی والوں کو مجرم قرار دیتی ہیں جب کہ پیپلز پارٹی کے ایک حامی وکیل افتخار شاہد نے ججوں کا سخت گیر فوجی ڈکٹیٹرجنرل ضیا ء الحق سے موازنہ کرتے ہوئے کہا ، کہ ان ججوں کا یہ فیصلہ سیاسی ہے اور غیر جانب دار نہیں ہے۔ کُچھ اور نے چیف جسٹس افٹخار چوہدری پر الزام لگایا ،کہ ان کا فیصلہ ذاتی انتقام کی بنا پر تھا کیونکہ صدر آصف علی زرداری نے ایک مرتبہ ان کا عہدہ سنبھالنے میں اڑچن ڈالی تھی۔

نیو یارک ٹائمز کہتا ہے کہ پاکستان میں یہ عدالتی ہنگامہ اوبامہ انتظامیہ کے لئے ایک مشکل گھڑی میں آیا ہے جو اس وقت پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہےتاکہ پاکستان افغانستان میں نیٹو افواج کے لئے رسد کے راستے دوبارہ کھول دے۔ یہ راستے نومبر کے مہینے سے بند ہیں ۔ جب سرحد پر امریکی فوجیوں کے ہاتھوں غلط فہمی میں 24 پاکستانی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ صدر اوبامہ کے خصوصی ایلچی مارک گروس من نے پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ساتھ راولپنڈی میں ان کے ہیڈکوارٹرز میں ملاقات کی ہے۔

اخبار واشنگٹن پوسٹ کا کہنا ہے کہ تجزیہ کار ون کے درمیان اس پر اختلاف رائے ہے کہ آیا مسٹر گیلانی کے مجرم قرار دئے جانے سے اُنہیں پارلیمنٹ کی نشست اور پھر اپنا عہدہ چھوڑنا پڑے گا۔ اور یہ سب کُچھ ہفتوں یا پھر مہینوں میں ہو سکتا ہے۔ اور اس کا دارومدار قانونی رسٓہ کشی پر ہوگا۔

مسلم لیگ کے رہنما، نوازشریف نے ، جن پر1997 میں اپنی وارت عظمیٰ کے دوران توہیں عدالت کا الزام لگ چکا ہےمسٹر گیلانی کو مشورہ دیا ہے کہ انہیں استعفیٰ دے دینا چاہئے۔اور مزید بُحران نہیں پیدا ہونے دینا چاہئے۔
اخبار کہتاہے کہ پاکستان میں اس سیاسی بُحران کی وجہ سے امریکہ کواس ملک کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات بحال کرنے کی کوششوں میں مشکل آتی رہی ہے ۔ لیکن مسٹر گیلانی اور ان کی پارٹی کے فے الوقت بر سر اقتدار رہنے سے کچھ نہ کچھ استحکام تو بحال ہوگا۔جس سے ماہرین کی رائے میں کم از کم اتنا تو ہوگا کہ دہشت گردی سے بر سر پیکاران دد اتّحادیوں کے مابین تعاون بحال کرنے میں مدد ملے ۔ پاکستان کی پارلیمنٹ نے پہلے ہی بالواسطہ طور پر امریکہ کی یہ درخواست قبول کر لی ہے کہ نیٹو افواج کے لئے رسد کے راستے کھول دئے جایئں ان میں ہزاروں آئیل ٹینکر بھی شامل ہیں۔

اخبار وال سٹریٹ کہتا ہے کہ پاکستان میں سیا سی عدم استحکا م کی وجہ سےدوسرے مسائیل سے نمٹنے سے توجہ ہٹ گئی ہے ۔ ان میں اقتصادی اور دہشت گردی کے مسائیل شامل ہیں۔ اور حالیہ مہینوں کے دورن گیلانی حکومت عدالتوں اور فوج کے ساتھ اقتدار کی سہ طرفہ کشمکش میں اُلجھی رہی ہے

اخبار نے امریکی عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے پاکستان اس قابل نہیں ہے۔ کہ وہ پڑوسی افغانستان میں جاری جنگ کو ختم کرانے میں کوئی مفید مطلب کردار ادا کر سکے۔

اخبار کہتا ہے کہ واشنگٹن کو پاکستان سے یہ توقّع ہے کہ وہ طالبان کو امن مذاکرات کی میز پر لائے گا۔

وال سٹریٹ جرنل نے ایک مقامی تجزیہ کار حسن عسکری رضوی کے حوالے سے بتایا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کومسٹر گیلانی کو ہٹانے پر اصرار رہا ۔ توپیپلز پارٹی غالباً اس عہدے کے لئے ایک نیا امیدوارتیار کر رہی ہے ۔اخبار کے بقول بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی ، عدلیے کے ساتھ اپنے اس بُحران کو توڑنے کے خیال سے اس سال کے دوسرے نصف میں قبل از وقت انتخابات کرائے گی ،

لاس انجلس ٹائمز کہتا ہے کہ اگر مسٹر گیلانی کو اپنا عُہدہ چھوڑنا پڑا تو اس سے صدر زرداری کے اندرونی حلقے میں بڑا خلاء پیدا ہوگا۔ ۵۹ سالہ گیلانی کا اپنی پارٹی کے رفقائے کار میں یہ شُہرہ ہے،کہ وہ مسٹر زرداری کے سب سے مشکل حریفوں کے ساتھ مصالحت کی راہ نکالنے کے ماہر ہیں۔ اور یہ کہ انہوں نے مسٹر زرداری اور ان کی اہلیہ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو سے انتہا درجے کی وفاداری برتی ہے۔ اور 2001 میں جب سابق حکمران پرویز مشرف نے یوسف رضا گیلانی اور دوسرے پیپلز پارٹی لیڈروں کےخلاف سیاسی مقاصد کی بنیاد پر مقدمے کھڑے کئے اور ان سے کہا کہ وہ پیپلز پارٹی چھوڑ کر جنرل کا ساتھ دیں ۔ تو مسٹر گیلانی نے صاف انکار کردیا ۔ اور انہوں نے پانچ سال سے زیادہ عرصہ راولپنڈی کی ایک جیل میں گُزارا۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG