رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: ایران پر اسرائیلی حملے کے امکانات


امریکی اخبارات سے: ایران پر اسرائیلی حملے کے امکانات
امریکی اخبارات سے: ایران پر اسرائیلی حملے کے امکانات

نیو یارک ٹائمز کے مطابق یہ افواہیں شدّت سے گشت کر رہی ہیں کہ اسرائیل ایران پر حملہ کرنے والاہے اور دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ اس پرامریکی تشویش کا اندازہ اس سے ہوتاہے کہ صدر اوباما کے قومی سلامتی کے مشیر ٹام ڈونِلن نے یروشلم میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمِن نیتن یاہُو سے ملاقات کی ہے جبکہ امریکی جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے چیئر مین جنرل مارٹِن ڈیمپسی نےسی این این پر ایک انٹرویو میں خبردار کیا کہ اس وقت اگر اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو اس سے عدم استحکام پھیلے گا ۔ اُدھر برطانوی وزیر خارجہ وِلیم ہیگ نے کہا ہے کہ ایران پر اس وقت حملہ کرنا اسرائیل کے لئے کوئی اچھی بات نہیں ہوگی۔ یہاں واشنگٹن میں اسرائیل کے ترجمان لیور وائین ٹراب نے کہا ہے کہ اسرائیل ایران کے خلاف مزید سخت تعزیرات لگانےپر زور دینے کے ساتھ ساتھ امریکہ کی طرح کوئی بھی متبادل قدم ُاٹھانے کے لئے تیارر ہے گا۔

اخبار کہتا ہے کہ اسرائیل چار ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانا چاہےگا۔ نتانز اور فور دو ، کے قریب یورینیم کی افزودگی کی تنصیبات، ارک میں بھاری پانی کا ری ایکٹر اور اصفہا ن میں یلو کیک کنورشن پلانٹ ۔ فوجی ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے لئے پہلا مسئلہ یہ ہوگا کہ وہاں تک کیونکر پہنچا جائے۔ ایک راستہ شمال میں ترکی۔دوسرا جنوب میں سعودی عرب یا پھر تیسرا اردن اور عراق کا ہے۔ اور عراق ہی کا راستہ سب سے زیادہ سیدھ میں ہوگااور فوجی مبصّرین کا کہنا کہ عراق کے پاس کوئی فضائی دفاعی انتظام نہیں اور چونکہ امریکی فوجیں وہاں سے نکل چکی ہیں اس لئے ان پر وہاں کی فضائی حدود کے دفاع کی کوئی ذمّہ داری نہیں آتی ۔ اسرائیل کے پاس امریکی ایف 151 اورایف 161 طیارے ہیں، جو یہ بم ہدف تک تو لے جاسکتے ہیں۔ لیکن انہیں جاتے اور واپس آ تے ہوئےایندھن کی ضرورت ہوگی جس کے لئے ٹینکر طیارے بھی چاہیئں۔ اخبار کہتا ہے کہ ایک اور مُشکل یہ ہے کہ نتانز کی تنصیب 30 فُٹ گہری کنکریٹ کے نیچے دبی ہوئی ہے۔ جب کہ فوردو کی تنصیب ایک پہاڑ کے اندرقائم ہےکیا اسرائیل کے پاس اتنی کاٹ کرنے والے بم ہیں ۔

اخبار نے دفاع کے عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا ہے،کہ موجودہ 30 ہزار پونڈ وزنی بموں کی مدد سے ایران کی سب سے گہری تنصیبات کو نہ اُڑا یا جا سکےگا، چنانچہ ان بموں کو جو خاص طور پر ایران ا ور شمالی کوریا کے لئے وضع کئے گئے تھے مزید طاقت ور بنایا جا رہا ہے۔

یو ایس اے ٹوڈے میں کالم نگا ر ایل نُیو ہارتھ کا کہنا ہے کہ واشنگٹن میں ہمارے لیڈروں اورمستقبل کے لیڈروں میں یہ بحث تُند ہوتی جا رہی ہے۔ کہ ایران کو جوہری بم بنانے سے کیونکر روکا جا سکتا ہے کالم نگار کا مشورہ ہے کہ ہمیں لمبا سانس لے کر اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہئے کہ بیس ہزار سے زیادہ وجوہات ہیں جن کی بناء پر اس کو ایسی اہمیت نہیں دینی چاہئے، کیونکہ امریکی سائنس دانوں کی فیڈریشن کے تخمینے کےمطابق جوہری بموں کی اتنی ہی تعداد اس وقت مختلف ملکوں کے پاس پہلے ہی موجُود ہے۔ رُوس کے بموں کی تعداد11000ہے امریکہ کی 8500فرانس کی 300 چین کی 240 برطانیہ کی 225پاکستان کی 110 بھارت کی 100،،اسرائیل کی 80 اور شمالی کوریا کی لگ بھگ 10 ہے۔

کالم نگار کا کہنا ہےکہ ایرانی جوہری عزائم پر یہ تُند و تیز بحث صدر اوباما کی تقریر کا شاخسانہ ہے ۔جس میں انہوں نے کہا تھا کہ امریکہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے پر تُلا ہوا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے تمام راستے کُھلے رکھے ہوئے ہیں۔اس کے بعد ری پبلکن صدارتی امّیدواروں نے جو اوباما کو ہٹانے کی فکر میں ہیں مقابلے میں اس سے بھی زیادہ سخت بیانات دینا شروع کئے ۔

آگے چل کر کالم نگار کا کہنا ہے کہ آج کل کے دور میں کسی بھی جگہ جوہری ہتھیار کو ممنوع قرار دینے کی کوشش کرنا ایسا ہی ہے جیسے زمانہء قدیم میں بندوقوں کو ممنوع قرار دینا۔

ٹرپل اے ورلڈ رسالے کے مطابق امریکہ میں بیو ڈیزل بیشتر سویا بین سے بنایا جاتا ہے لیکن غذائی اجناس کو ایندھن بنانے کے لئے استعمال کرنے سےغذائی اجناس کی قیمتیں بڑھنے کے ڈر سے محقّقین متبادل ذرائع پر تجربے کر رہے ہیں۔ جس سےیہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ مگر مچھ کی چربی سے بھی بیو ڈیزل بنایا جاسکتا ہے جو نہ صرف اتنا ہی اچھا بنتا ہے بلکہ اس سے سستا بھی۔

XS
SM
MD
LG