رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: نیٹو رسد کی بحالی اور پاکستان کے مطالبات


رپورٹ کے مطابق دونوں ممالک کے حکام سپلائی روٹ کی بحالی کےلیے مفاہمت کی ایک یادداشت کوحتمی شکل دے رہے ہیں اور امکان ہے کہ اس بارے میں حتمی معاہدہ جمعے تک طے پاجائے گا

افغانستان میں تعینات نیٹو افواج کے لیے پاکستان کے راستے رسد کی بحالی کا موضوع ان دنوں امریکی ذرائع ابلاغ میں گرم ہے۔آئے روز مختلف اخبارات ایسی خبریں، تبصرے اور تجزیے شائع کر رہے ہیں جن سے لگتا ہے کہ نیٹوسپلائی کا اونٹ عنقریب کسی کروٹ بیٹھنے کو ہے۔

جمعرات کو مختلف امریکی اخبارات نے خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کی ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ چھ ماہ سے معطل نیٹو سپلائی کی بحالی کے معاملے پر پاکستان اور امریکہ کے درمیان بھاؤ تاؤ جاری ہے۔

امریکی عہدیداران کا کہنا ہے کہ نیٹو سپلائی کی بحالی کے لیے دونوں ممالک کے حکام اسلام آباد میں مذاکرات میں مصروف ہیں جن میں رسد لے جانےوالی ٹرکوں کی سیکیورٹی اور پاکستان کی جانب سے ان پر عائد کیے جانے والے ٹیکسوں کے معاملات زیرِ بحث ہیں۔

رپورٹ کے مطابق دونوں ممالک کے حکام سپلائی روٹ کی بحالی کےلیے مفاہمت کی ایک یادداشت کوحتمی شکل دے رہے ہیں اور امکان ہے کہ اس بارے میں حتمی معاہدہ جمعے تک طے پاجائے گا۔

لیکن مذاکرات سے واقفیت رکھنے والے ایک پاکستانی اہلکار کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان اْس رقم پر اختلافات اب بھی موجود ہیں جو پاکستان رسد کی بحالی کے عوض طلب کر رہا ہے۔

رپورٹ میں پاکستانی عہدیدار کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ رسد لے جانے والے ٹرکوں کے لیے سیکیورٹی انتظامات اور ان کے کسٹم اور جانچ پڑتال کے معاملات ثانوی نوعیت کے ہیں اور اگر رقم پہ اتفاق ہوگیا تو ان امور پہ موجود اختلافات بھی بآسانی طے پاجائیں گے۔

لیکن آخر پاکستان رسد بحال کرنے کےعوض کتنی رقم مانگ رہا ہے جسے دینے میں امریکی حکام پس و پیش سے کام لے رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' نے اپنی ایک رپورٹ میں دیا ہے۔

اخبار لکھتا ہے کہ پاکستانی حکام نے اپنی حدود سے گزر کر افغانستان جانے والے ہر نیٹو کنٹینر اور ٹینکر کے عوض پانچ ہزار ڈالر کی ادائیگی کا تقاضا کیا ہے جسے امریکی حکام بھاؤ تاؤ کے ذریعے کم کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اخبار کے بقول، پاکستان نے اس فیس کا تقاضا اپنے انفراسٹرکچر کو پہنچنے والے نقصان کی بنیاد پر کیا ہے جو ماضی میں نیٹو کے ٹرکوں کی آمد و رفت کے باعث اس کی سڑکوں کو پہنچا ہے، جب کہ اس رقم میں نیٹو ٹرکوں کی مجوزہ سیکیورٹی پہ آنے والی لاگت بھی شامل کی گئی ہے۔

اخبار نے حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ نیٹو سپلائی کی بحالی کے لیے دونوں ممالک کے درمیان معاہدہ اب یقینی ہے جس کی تفصیلات طے کی جارہی ہیں۔ پاکستانی حکام کے بقول معاہدے کا فریم ورک تیار کرلیا گیا ہے اور اب دونوں ممالک کے مذاکرات کار پاکستان کی جانب سے طلب کی جانے والی فیس پر گفت و شنید کر رہے ہیں۔

اخبار لکھتا ہے کہ پاکستان کی جانب سے اتنی بھاری رقم کا تقاضا امریکہ سے ہضم نہیں ہورہا کیوں کہ سلالہ چیک پوسٹ پر حملے سے قبل نیٹو ممالک پاکستان کے زمینی راستے بغیر کسی معاوضے کے استعمال کر رہے تھے۔

لیکن امریکی حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک عشرے کے دوران انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں میں ہونے والے نقصان کے ازالے کی مد میں امریکہ نے پاکستان کو اربوں ڈالر دیے ہیں ۔ ان کے بقول، اگر رسد کی بحالی پر عائد فیس پر اتفاق ہوا تو پھر پاکستان کو اس مد میں دی جانے والی مالی امداد معطل ہوسکتی ہے۔

اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' میں ہی شائع ہونے والے ایک مضمون میں پاکستا ن کی اپنے قبائلی علاقوں سے متعلق پالیسی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

اخبار کے کالم نگار ڈیوڈ اگنیشیس لکھتے ہیں کہ پاکستان کو چاہیئے تھا کہ وہ سرحد کے دوسری جانب موجود امریکی فوج کے ساتھ مل کر جنگجو رہنماؤں اور دہشت گردوں کی آماجگاہ کی حیثیت سے معروف اپنے قبائلی علاقوں کو مستحکم کرنے اور ریاست کے زیرِانتظام لانے کی کوشش کرتا۔

لیکن مضمون نگار کے بقول پاکستان نے اس موقع کا فائدہ اٹھانے کے بجائے ان قانون شکن گروہوں کے ساتھ مل کر کھیل کھیلنے کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں خود پاکستان اور اس کی پڑوسی ریاستیں آئندہ کئی عشروں کے لیے غیر محفوظ ہوگئی ہیں۔

اخبار لکھتا ہے کہ پاکستانیوں کی حقانی نیٹ ورک کے ساتھ مفاہمت ان کا سب سے بڑا احمقانہ قدم ہے کیوں کہ یہ ایسا ہے جیسے کوئی شخص زہریلے سانپ کے ساتھ کھیلنے پر مصر ہو۔

مضمون نگار کے بقول بین الاقوامی افواج کی افغانستان میں موجودگی کی صورت میں پاکستانیوں کو پوری ایک دہائی تک اپنے ملک کو محفوظ اور ترقی یافتہ بنانے کا موقع میسر رہا لیکن انہوں نے اسے گنوادیا۔

XS
SM
MD
LG