افغانستان میں نیٹو افواج کے لئے پاکستان کے جس راستے سے سامان رسد جاتا تھا اس کو بند ہوئے 20 روز سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے۔ اور، ’کرسچن سائینس مانٹر‘ کہتا ہے کہ ایسے میں جب اس تعطّل کو دور کرنے کے لئے مذاکرا ت جاری ہیں، کراچی کی بندرگاہ پر اس سامان رسد کے انبار جمع ہورہے ہیں، جس میں ایندھن سے لے کر کھانے پینےکا سامان شامل ہے۔4000 ٹرک بیکار پارک ہیں اور ان کےڈرایئور چائے پینے یا تاش کھیلنےمیں وقت گذار رہے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ مزید سامان رسد کی آمد بلا روک ٹوک جاری ہے اور سرحد کو بند کرنے کی کاروائی ابھی اس مرحلے پر نہیں پہنچی ہے، جب امریکہ یا پاکستان کی طرف سے مزید سامان کی آمد روکنے کے لئے کہا جائے گا، جیسا کہ ’فیرل لائینز‘ نامی اس جہازران کمپنی کے ترجمان محمد راجپوت نے کہا ہے، جو امریکی فوج کے لئے اس سامان رسد کی ڈھلائی کی ذمّہ دار ہے اور ہر ماہ ایک ہزار امریکی فوجی ٹرک اس مقصد سے چلاتی ہے ۔
اخبار نے ’آل پاکستان آئیل ٹینکرز ایسوسی ایشن‘ کے نائب صدر، حاجی حضرت گُل کے حوالے سے بتایا ہےکہ نیٹو کے ٹرک چلانے والوں میں سے80 فی صد وزیرستان کے قبائیلی علاقے کے پشتُون ہیں۔ یہ علاقہ عسکریت پسندوں کا گڑھ مانا جاتا ہے جس نے حکیم اللہ محسُود جیسے طالبان لیڈر پیدا کئے ۔ اخبار کہتا ہے کہ ان لوگوں کے خاندانی اور قبائیلی رشتوں کی بدولت سرحد تک محفوظ راہداری کی ضمانت ہو جاتی ہے۔ لیکن ان میں سے بیشتر اس ذہنی کشمکش میں مبتلا ہوتے ہیں کہ وہ شاید دُشمن کی امداد کر رہے ہیں۔
اخبار نے راحت خان نامی ایک ڈرایئور کے حوالے سے بتایا ہے کہ پولیس کی طرف سے ٹرک چلانے والوں کو تنگ کرنا معمول بن گیا ہے اور ان سے کہا جاتا ہےہمیں دس ہزار روپے دو ورنہ ہم تمہاری کھڑکیاں توڑ دیں گے اور جب ہم نماز کے لئے رکتے ہیں تو وہ ہماری پٹائی کرتے ہیں۔شکایت لگانے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اس سے حالات اور بگڑ جائیں گے۔
اخبار کہتا ہے کہ ٹرک چلانے والوں کےلئےتسلّی کی بات یہ ہےکہ وہ ماہانہ ڈھائی سو ڈالر کما لیتےہیں، یعنی مقامی ڈرائیوروں کےمقابلےمیں دوگنا۔ البتہ، جہاں پاکستانی کمپنیاں اپنے ڈرائیوروں کے خاندانوں کو موت واقع ہونے کی صورت میں بیمہ فراہم کرتی ہیں، نیٹو ٹرک ڈرائیوروں کو یہ مراعا ت حاصل نہیں، جنہیں بعض اوقات عسکریت پسندوں کے حملوں سے نمٹنا پڑتا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ پچھلے جمعے کوافغانستان میں امریکی فوجوں کے لئےسامان لے جانے والے 42 ٹینکر اور ٹرک، راکیٹ لانچروں سے لیس عسکریت پسندوں نے تباہ کر دئے تھے۔
اخبار کے مطابق راجپوت کا یہ بھی کہنا تھا، معلوم ہو رہا ہے کہ رواں بحران سے نیٹو افواج بری طرح متاثّر ہو رہی ہیں۔ باوجودیکہ شمالی راستہ کھل جانے کے بعد نیٹو نے پاکستانی راستے پر اپنا انحصار بتدریج کم کر دیا ہے، لیکن وسط ایشیا کی طرف سے آنے والا یہ راستہ حال ہی میں منجمد کرنے والے موسم سے بری طرح متاثر ہوا ہے اور پٹرول اور پانی کی رسد ہوائی جہازوں سے پہنچائی جا رہی ہے۔
تقریباً 9 سال بعد، ساڑھے چار ہزار امریکی فوجیوں کی جانی قربانی کے بعد عراق میں جنگ کے خاتمے کا اعلان بغداد کی ایک خصوصی تقریب کیا گیا، جس میں وزیر دفاع لیون پینیٹا نے اُن دس لاکھ سے زیادہ امریکی فوجیوں کا شکریہ ادا کیا، جنہوں نے پچھلے 9 سال کے دوران عراق میں خدمات سر انجام دیں۔
’نیو یارک ٹائمز ‘کہتا ہے کہ یہ جنگ بُش انتظامیہ نے 2003ء میں اس بنیاد پر شروع کی تھی کہ عراق کے پاس وسیع پیمانے کی تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں اور اس کے القاعدہ کے ساتھ روابط ہیں ۔ لیکن یہ ہتھیار جب وہاں نہ ملے تو انتظامیہ کی سبکی ہوئی جس کے بعد اس جنگ کا نصب العین وسط مشرق میں جمہوریت لانا قرار پایا۔اور اس میں شبہ نہیں کہ بہت سے عراقیوں میں اس پر خوش دلی کا احساس بڑھنے لگا کہ عراق پر امریکی حملے سے صدّام حسین کا تختہ الٹا گیا ہے۔ لیکن، خونیں فرقہ وارانہ اور مذہبی رقابتوں کے پس منظر میں یہ حمایت جلدی ہی بدمزگی کا شکار ہوگئی ۔ اخبار کہتا ہے کہ خصوصی کاروائیاں کرکے متعدد القاعدہ لیڈروں کو یا تو ہلاک کیا گیا ہے یا پھر گرفتار کیا گیا ہے اور اس طرح دہشت گرد تنظیموں کو بے اثر بنا دیا گیا ہے۔ لیکن انٹلی جینس کے ماہرین کو اب بھی اندیشہ ہے کہ وہ دوبارہ سر اٹھائیں گے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: