’شکاگو ٹربیون‘ کے مطابق جون کے مہینے میں امریکی آجروں نے جتنے نئے ملازم بھرتی کیے وہ 9 ماہ کے دوران سب سے کم تھے۔ اِس طرح یہ امید معدوم ہوگئی کہ رواں سال کے دوسرے نصف کےدوران معیشت میں بہتری آنی شروع ہوگی۔
زراعت کے شعبےکو چھوڑ کر مجموعی طور پر صرف 18ہزار نئی اسامیاں پُر کی گئیں۔ حالانکہ، ماہرین ِ معاشیات کا اندازہ تھا کہ 90ہزار نئی اسامیوں کا اضافہ ہوگا، چناچہ بیروزگاری کی مجموعی شرح 9.2فی صد ہوگئی۔
سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران اقتصادی سرگرمی اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے دباؤ کا شکار رہی اور مارچ میں جاپان میں جو تباہ کُن زلزلہ آیا تھا اُس کی وجہ سے رسد کا نظام تہ و بالا ہوگیا۔
لیبر مارکیٹ کی یہ کیفیت اوباما انتظامیہ کے لیے ایک دھچکا ہے جِس کی کوشش معیشت میں روزگار کے اتنے مواقع پیدا کرنے پر مرکوز رہی ہے تاکہ ایک کروڑ 41لاکھ بے روزگار افراد کو کام ملے۔
معیشت ووٹروں کے لیے سب سے اہم بات ہے اور صدر اوباما کے اگلے سال دوبارہ منتخب ہونے میں اِس کا اہم کردار ہوگا، جب کہ معاشی کساد بازاری میں روزگار کے جو 80لاکھ سے زیادہ مواقع ہاتھ سے نکل گئے تھے اُن میں سے تھوڑے ہی اب تک بحال ہوئے ہیں۔
تھائی لینڈ میں خاتون تاجر یِنگ لک شِناوترا کی پھُیو تھائی پارٹی نے پارلیمانی انتخابات میں جو فیصلہ کُن کامیابی حاصل کی ہے اُس پر ’واشنگٹن پوسٹ‘ کہتا ہے کہ اِس پارٹی نے پارلیمنٹ کی 500نشستوں میں سے 265نشستیں حاصل کی ہیں جب کہ حکمراں ڈیموکریٹک پارٹی کو صرف 150نشستیں ملی ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ جیتنے والی پارٹی خاص طور پر دیہاتی علاقوں میں اور اُس سے زیادہ ملک کے شمالی حصوں میں بہت مقبول ہے جبکہ ڈیموکریٹک پارٹی کا زور دارالحکومت بنکاک کے متوسط طبقےتک محدود ہے اور اِس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہونی چاہیئے کیونکہ مس یِنگ لک کی پارٹی پہلے کامیاب ہوئی تو فوج کو یہ بات اچھی نہ لگی اور اُس نے 2006ء میں فوجی انقلاب برپہ کرکے اُس کو اقتدار سے ہٹا دیا۔ پھرجب یہ پارٹی 2007ء میں پھر کامیاب ہوئی تو اُس نے جمہوریت اور اچھی حکومت کا بہانہ کرکے اُسے حکومت بنانے سے روک دیا۔
اخبار کہتا ہے کہ مس یِنگ لک کے ابتدائی اقدامات امیدافزا ہیں کہ اُنھوں نے پارٹی کے اقتصادی پلیٹ فارم پر عمل کرنے کے علاوہ کئی چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ مل کر ایک مخلوط حکومت بنانے کا اعلان کیا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اس سے یہ یقین دہانی ہوجائے گی کہ وہ’ کچھ دو اور کچھ لو‘ کے اصول پر کام کرنے پر تیار ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکہ کے نقطہٴ نظر سے اگر چھ کروڑ 70لاکھ والا یہ ملک جمہوریت کو استحکام دینے میں کامیاب ہوا تو اِس سے اِس علاقے کی دوسری جمہورتوں کو تقویت ملے گی۔
’میامی ہیرالڈ‘ نے فلوریڈا کے ساحلِ سمندر پر بڑھتی ہوئی آلودگی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا ہے کہ پچھلے سال برٹش پیٹرولیم کی رِگ پھٹ جانے کی وجہ سے خام تیل کی جوزبردست آلائش سمندر میں پھیلی تھی اُس سے قطع نظر فلوریڈا کے ساحلوں پر ایک سال پہلے کے مقابلے میں یوں بھی جرثوموں کی آلائش زیادہ ہوچکی تھی۔ خلیج میکسکو سے لگنے والے ساحل بشمول فلوریڈا کے ساحل کے ساتھ ساتھ تیل بہنے کے اِس حادثے کی وجہ سے تقریباً ایک ہزار میل کا علاقہ آلودہ ہوگیا تھا۔ اِس کے علاوہ بھی اِس آلودگی میں شہروں سے جو کچرہ اور انسانوں اور جانوروں کا فضلہ بہہ کر آتا ہے اُس سے بھی ساحلی علاقے بُری طرح متاثر ہوتے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ فلوریڈا کے ساحلی تفریحی مقامات کی پوری طرح نگہداشت ہونی چاہیئے، کیونکہ ماحولیاتی اعتبار سے وہ قیمتی ہیں اور منافع بخش وسیلہ ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ اِس سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران سورج کی شعاعوں سے مالا مال اِس ریاست میں شمال سے اور سمندر پار یورپی علاقوں سے اِس کی سیاحت کو آنے والے افراد کی تعداد دو کروڑ 30لاکھ سے زیادہ تھی۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: